کمیونسٹ پارٹی کا مینی فیسٹو کمیونسٹوں کے نظریات کو سمجھنے میں ہماری مدد
کرتا ہے۔ سرمایہ داری کے ستائے بہت سے لوگوں کے لئے سوشلزم ایک جائے پناہ ہے۔
عبدالحمید یوسف
سونہٹی، ڈومریا گنج،
سدھارتھ نگر، اتر پردیش،
بھارت، پن: ۲۷۲۱۸۹
موبائل: 9161789558
یورپ کے اوپر ایک بھوت منڈلا رہا ہے۔ کمیونزم کا بھوت۔ اس بھوت کو اتارنے کے لئے پرانے یورپ کی تمام طاقتوں پوپ اور بادشاہ میٹرنک اور گیزو، فرانسیسی ریڈیکل اور جرمن پولیس کے جاسوسوں نے ایک مقدس اتحاد کر لیا ہے۔ وہ کون سی مخالف پارٹی ہے جسے اس کے ذی اقتدار اور حریفوں نے کمیونسٹ کہہ کر رسوا کیا؟ وہ کون سے مخالف ہیں جنہوں نے اپنے سے زیادہ ترقی پسند مخالف پارٹیوں پر اور اپنے رجعت پسند حریفوں پر بھی الٹا کمیونزم کلنک نہ لگایا ہو؟
اس حقیقت سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
۱۔ تمام یورپی طاقتوں نے کمیونزم کو بجائے خود اب ایک طاقت تسلیم کر لیا ہے۔
۲۔ وقت آ گیا ہے کہ کمیونسٹ اب ساری دنیا کے سامنے برملا اپنے خیالات، مقاصد اور رجحانات کی اشاعت کریں اور کمیونزم کے بھوت کی اس طفلانہ کہانی کے جواب میں خود اپنی پارٹی کا مینی فیسٹو پیش کریں۔ اسی غرض سے مختلف قوموں کے کمیونسٹ لندن میں جمع ہوئے اور مندرجہ ذیل مینی فیسٹو تیار کیا جو انگریزی، فرانسیسی ، جرمن، اطالوی، فلیمی اور ڈینش زبانوں میں پیش کیا جائے گا۔
1۔ بورژوا اور پرولتاریہ
(بورژوا سے جدید سرمایہ داروں کا وہ طبقہ مراد ہے جو سماجی پیداوار کے ذرایع کے مالک ہیں اور مزدوروں سے اجرت پر کام لیتے ہیں۔ پرولتاریہ، موجودہ زمانے کا اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کا طبقہ ہے۔ جس کے پاس اپنا کوئی ذریعہ پیداوار نہیں اور جسے زندہ رہنے کے لئے اپنی طاقت محنت بیچنی پڑتی ہے۔ (1888ء کے انگریزی ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔)
آج تک تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔
(یعنی وہ تمام تاریخ جو قلم بند ہو چکی ہے۔ 1847 میں سماج کے ماقبل تاریخ کا زمانہ یعنی تاریخ کے قلم بند ہونے سے پہلے کی سماجی تنظیم گویا کسی کو معلوم نہ تھی۔ لیکن اس کے بعد ہیکس تھاسن نے روس میں زمین کی مشترکہ ملکیت کا پتہ لگایا۔ پھر ماورر نے ثابت کیا کہ تمام قدیم جرمانوی نسلوں نے جب تاریخ کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس وقت ان کی ہیئت اجتماعی کی بنیاد اس مشترکہ ملکیت پر تھی، اور رفتہ رفتہ پتہ چلا کہ ہندوستان سے آئرلینڈ تک ہر جگہ سماج دیہی برادریوں کی شکل میں منظّم تھا یا اس شکل میں رہا ہے۔ اور مارگن نے جب کنبے کی اصلی نوعیت اور قبیلے سے اس کے تعلق کا حال معلوم کر لیا تو اس قدیم کمیونسٹ سماج کی اندرونی تنظیم اس کی مخصوص شکل میں اندھیرے سے اجالے میں آگئی۔ یہی دریافت مارگن کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ ان قدیم برادریوں کے تتر بتر ہونے پر سماج میں الگ الگ اور آخرکار مخالف طبقوں کا امتیاز پیدا ہو گیا۔ میں انے اپنی کتابDer Ursprung der Familie, – des Privateigentums und des Staats, 2 Aufl, Stuttgart, 1886.) دیکھئے:۔ فریڈرک اینگلز۔ خاندان ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز ’’دوسرا ایڈیشن اشنوٹ کارٹ 1886) میں اس انتشار کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ (1888ء کے انگریزی میں اینگلز کا حاشیہ۔)
آزاد اور غلام، پتریشین اور پلیبین، جاگیردار اور زرعی غلام ، استاد (استاد یعنی گلڈماسٹر، اہل حرفہ کی انجمنوں یعنی گلڈ کے پورے رکن ہوتے تھے۔ وہ پوری انجمن کے سردار نہیں بلکہ اس کے اندر کی حیثیت رکھتے تھے۔ (1888 کے انگریزی ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔) اور کاریگر، غرضیکہ ظالم اور مظلوم برابر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے، کبھی کھلے بندوں اور کبھی پس پردہ ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ اور ہر بار اس لڑائی کا انجام یہ ہوا کہ یا تو نئے سرے سے سماج کی انقلابی تعمیر ہوئی یا لڑنے والے طبقے ایک ساتھ تباہ ہو گئے۔
تاریخ کے ابتدائی زمانوں میں تقریباً ہر جگہ ہم سماج کو مختلف پرتوں میں تہہ بہ تہہ پاتے ہیں۔ مختلف سماجی مراتب کا ایک پورا زینہ ملتا ہے۔ قدیم روم میں ہمیں پتریشین، نائٹ، پلیبین، اور غلام ملتے ہیں اور عہد وسطی میں جاگیردار، آسامی، استاد، کاریگر، نوسکھئے، شاگرد اور زرعی غلام۔ اور تقریباً ان تمام طبقوں میں مزید ذیلی تقسیمیں ہیں۔
جدید بورژوا سماج نے جو کہ جاگیردار سماج کے کھنڈروں سے ابھرا ہے طبقاتی اختلافات کو دور نہیں کیا۔ اس نے تو محض پرانے کی جگہ نئے ظلم کی نئی صورتیں اور نئی شکلیں پیدا کر دیں۔ پھر بھی ہمارا عہد جو بورژوا طبقے کا عہد ہے، ایک امتیازی صفت رکھتا ہے۔ اس نے طبقاتی اختلافات کی پیچیدگی کو کم کر دیا ہے۔ سماج بحیثیت مجموعی دن بدن دوبڑے مخالف مورچوں میں، دو بڑے طبقوں بورژوا اور پرولتاریہ میں بٹتا جا رہا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔
عہد وسطی کے زرعی غلاموں سے ابتدائی شہروں کے حقوق یافتہ شہری پیدا ہوئے تھے۔ ان ہی شہروں سے بورژوا کے ابتدائی عناصر کی نشونما ہوئی۔
امریکہ کی دریافت اور افریقہ کے گردجہازرانی شروع ہونے کی وجہ سے ابھرتے ہوئے بورژوا طبقے کے لئے راہیں کھل گئیں۔ ایسٹ انڈیا ور چین کی منڈیوں، امریکہ کی نوآبادکاری، نو آبادیوں کے ساتھ تجارت، ذرائع، تبادلہ اور عام طور سے اجناس کی کثرت نے تجارت جہازرانی اور صنعت کو ایسی ترغیب دی جو کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اور اس کی وجہ سے گرتے ہوئے جاگیردار سماج میں انقلابی عناصر کو تیزی سے بڑھنے کا موقع ملا۔
صنعت کا نظام سابق جاگیردارانہ یا شاہوں کا، اب نئی منڈیوں کی بڑھتی ہوئی مانگوں کے لئے ناکافی ہو گیا۔ کارخانہ دار نظام نے اس کی جگہ لی۔ استاد کو درمیانی کارخانہ دار پرت نے نکال باہر کیا۔ ہر کارخانے کی اندرونی تقسیم محنت کے مقابلے میں اہل حرفہ کی مختلف جماعتوں کی باہمی تقسیم محنت ختم ہو گئی۔ اس اثنا میں منڈیاں برابر پھیلتی رہیں۔ مانگ برابر بڑھتی رہی حتی کہ کارخانہ داری بھی اب کافی نہ ہو سکی۔ تب بھاپ اور مشین نے صنعتی پیداوار میں انقلاب برپا کر دیا۔ کارخانہ داری کی جگہ دیوہیکل جدید صنعت نے اور درمیانی کارخانہ دار پرت کی جگہ صنعتی کروڑپتیوں نے بڑی بڑی صنعتوں فوجوں کے لیڈر، جدید بورژوا طبقے نے لے لی۔
جدید صنعت نے عالمگیر منڈی قائم کی، جس کے لئے امریکہ کی دریافت سے راہ کھل چکی تھی۔ اس منڈی نے تجارت، جہازرانی اور خشکی کے وسائل آمدورفت کو زبردست ترقی دی۔ اس ترقی سے صعنت کے بڑھنے میں اور مدد ملی۔ اور جیسے جیسے صعنت تجارت، جہازرانی اور ریلوں کو توسیع ہوئی، اسی مناسبت سے بورژوا طبقے کی نشوونما ہوئی۔ اس نے اپنا سرمایہ بڑھایا اور ہر اس طبقے کو دھکیل کر پیچھے کر دیا جو عہد وسطی سے چلا آرہا تھا۔
غرضیکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود جدید بورژوا طبقہ ارتقا کے ایک طویل سلسلے کا، پیداوار اور تبادلے کے طریقوں میں مسلسل کئی تغیرات کا نتیجہ ہے۔
بورژوا طبقے نے اپنی نشوونما کے دوران جو قدم بھی اٹھایا، اس کے ساتھ اسی مناسبت سے اس طبقے کی سیاسی ترقی بھی ہوئی۔ جاگیردار کے عہد حکومت میں وہ ایک مظلوم طبقہ تھا۔ زمانہ وسطی کے کمیون (بلدیہ) (’’کمیون‘‘ فرانس میں ابتدائی قصباتی شہروں کا نام اسی وقت سے چلا آتا ہے۔ جبکہ انھوں نے اپنے جاگیردار آقاؤں سے لڑ کر مقامی خود انتظامی اور تیسرے طبقے کی حیثیت سے اپنے سیاسی حقوق بھی نہیں حاصل کئے تھے۔ اس کتاب میں عام طور سے بوژروا طبقے کی اقتصادی نشوونما کا ذکر کرتے ہوئے انگلینڈ کو اور سیاسی نشوونما کا ذکر کرتے ہوئے فرانس کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ (1888 کے انگریزی ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔) (اٹلی اور فرانس کے شہری باشندوں نے اپنی شہری برادریوں کو یہ نام اسی وقت دے دیا تھا جب انھوں نے اپنے جاگیردار مالکوں سے خود حکومتی کے ابتدائی حقوق خریدے یا زبردستی حاصل کئے۔ (1890ء کے جرمن ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔) میں ایک ہتھیار بند اور خود مختار جماعت، کہیں آزاد شہری جموریہ (جیسے اٹلی اور جرمنی میں) اور کہیں بادشاہی حکومت میں محصول گذار ’’تیسرا طبقہ‘‘ (جیسے فرانس میں)۔ بعد میں اصل کارخانہ داری کے زمانے میں اس نے امرا کے خلاف نیم جاگیرداری یا خودمختاری شاہی حکومت کا پلہ بھاری کیا اور حقیقت میں عام طور پر بڑی بادشاہتوں کا سنگ بنیاد بنا۔ اسی بورژوا طبقے نے بالآخر بڑی صنعت اور عالم گیر منڈی قائم ہوجانے پر جدید نمائندۂ ریاست میں بلاشرکت غیرے اپنے لئے سیاسی اقتدار حاصل کر لیا۔ جدید ریاست کا صیغہ انتظامی تو محض ایک کمیٹی ہے جو پورے بورژوا طبقے کے مشترکہ معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے۔
بورژوا طبقے نے تاریخی اعتبار سے نہایت انقلابی خدمت انجام دی ہے۔
بورژوا طبقے کا جہاں کہیں غلبہ ہوا، اس نے تمام جاگیردار، سرقبیلی اور دیہاتی رومانوی تعلقات کا خاتمہ کر دیا۔ اس نے بے دردی سے ان گوناگوں جاگیردار بندھنوں کو توڑ دیا جو انسان کو اس کے پیدائشی آقاؤں کا پابند کئے ہوئے تھے اور خالص تن پروری اور بے درد نقد لین دین کے سوا آدمی میں اور کوئی رشتہ باقی نہیں رہنے دیا۔ اس نے مقدس مذہبی ولولے بہادرانہ اولوالعزمیوں اور پیٹی بورژوا جذبات پرستی میں تمام کیف کو حرص اور خود غرضی کے سرد پانی میں ڈبو دیا۔ اس نے جوہر ذاتی کو آنے پائی میں بدل دیا۔ اور بے شمار ناقابل ضبط سند یافتہ آزادیوں کی جگہ ریا اور مکر سے بھری واحد آزادی قائم کی اور وہ ہے تجارت کی آزادی۔ مختصر یہ کہ اس نے مذہب اور سیاست کے پردوں سے ڈھکے ہوئے استحصال کی جگہ عریاں، حیا سوز، براہ راستہ وحشیانہ استحصال رائج کر دیا۔
بورژوا طبقے نے ہر اس پیشے کی عظمت چھین لی جس کی اب تک عزت ہوتی آئی تھی اور جس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے طبیب، وکیل، مذہبی پیشوا، شاعر، اہل علم سب کو اپنا تنخواہ دار، اجرت پر کام کرنے والا مزدور بنا دیا ہے۔ بورژوا طبقے نے خاندانی رشتوں کی دلگداز جذبات پرستی کا نقاب چاک کر دیا ہے اور ان کو محض روپے آنے پائی کا رشتہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ بورژوا طبقے نے یہ راز فاش کر دیا ہے کہ عہد وسطی میں اپنے کس بل کی وحشیانہ نمائش کا، جس کے رجعت پرست اس قدر دل دادہ ہیں، اورسخت کاہلی اورعیش پرستی کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ وہ پہلا طبقہ ہے جس نے دکھا دیا کہ انسانی کارگذاری کیا کچھ کر سکتی ہے۔ اس نے وہ عجائبات پیش کئے جن کے مقابلے میں مصر کے اہرام، روم کی نہریں اور گاتھی نمونے کے شاندار گرجے ہیچ ہیں۔ اس نے وہ مہمیں سر کی ہیں جن کے سامنے تمام اگلے زمانوں کی قوموں کی مہمیں اور صلیبی جنگیں مات ہیں۔
بورژوا طبقہ آلات پیداوار میں اور ان کی وجہ سے تعلقات پیداوار میں اور ان کے ساتھ سماج کے سارے تعلقات میں لگاتار انقلابی الٹ پلٹ کئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے برعکس پیداوار کے پرانے طریقوں کو بلا کسی ردوبدل کے جوں کے توں قائم رکھتا، پہلے زمانے کے تمام صنعتی طبقوں کے بقا کی پہلی شرط تھی۔ پیداوار میں پیہم انقلابی الٹ پلٹ، جملہ سماجی تعلقات میں لگاتار خلل، دائمی عدم استحکام اور ہلچل، بورژوای کے عہد کو پہلے کے تمام زمانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ تمام دیرینہ تعلقات جو پتھر کی لکیر بن چکے تھے، اپنے قدیم اور لائق احترام تعصبات اور عقیدوں کےلاؤ لشکر سمیت نیست و نابود ہو گئے اور نئے قائم ہونے والے تعلقات جڑ پکڑنے بھی نہیں پاتے کہ فرسودہ ہو جاتے ہیں۔ کل تک جو ٹھوس تھا، آج ہوا ہو گیا۔ جو پاک تھا وہ نجس ہے۔ اور انسان آخر کار مجبور ہوا کہ اپنی زندگی کی حقیقتوں کا اور اپنے ہم جنسوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا پورے ہو ش و حواس کے ساتھ جائزہ لے۔ اپنے مال کے لئے منڈی کو برابر بڑھاتے ر ہنے کی ضرورت بورژوا طبقے سے سارے جہان کی خاک چھنواتی ہے۔ اسے ہر شاخ پر آشیانہ بنانا پڑتا ہے۔ ہر جگہ گھر بسانا پڑتا ہے۔ ہر جگہ تعلقات قائم کرنے پڑتے ہیں۔ بورژوا طبقے نے عالم گیر منڈی کے استحصال کے ذریعہ ہر ملک میں پیداوار اور کھپت کو آفاقی رنگ دیا ہے۔ رجعت پرست سخت خفا ہیں کہ صنعت جس قومی بنیاد پر کھڑی تھی وہ زمین اس کے پاؤں تلے سے نکل گئی۔ پہلے سے چلی آنے والی تمام قومی صعنتیں تباہ کر دی گئیں یا دن بدن تباہ ہوتی جا رہی ہیں۔ نئی صنعتیں ان کی جگہ لے رہی ہیں جو رائج کرنا تمام مہذب قوموں کے لئے زندگی اور موت کا سوال بنتا جا رہا ہے۔ یہ وہ صنعتیں ہیں جن میں اپنے دیس کا کچا مال استعمال نہیں ہوتا بلکہ دور دور کے علاقوں سے کچا مال آتا ہے۔ ان صنعتوں کی پیداوار کی کھپت صرف اپنے ملک میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر گوشے میں ہوتی ہے۔ پرانی ضرورتوں کی جگہ جو اپنے ملک کی پیداوار سے پوری ہوجایا کرتی تھیں، اب نئی ضرورتیں پیدا ہو گئی ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے دور دراز کے ملکوں او رعلاقوں کا مال چاہئے۔ پرانی مقامی اور قومی علیحدگی اور خود کفالتی کے بدلے اب ہر طرف باہمی اشتراک کا دور دورہ ہے اور قوموں کی ایک دوسرے سے عالم گیر وابستگی دیکھنے میں آتی ہے۔ مادی پیداوار کا جو حال ہے وہی ذہنی پیداوار کا بھی ہے۔ ہر قوم کے ذہنی کارنامے ساری دنیا کی میراث بنتے جا رہے ہیں۔ قومی یک طرفہ پن اور تنگ نظری دن بدن نا ممکن ہوتی جا رہی ہے اور متعدد قومی اور مقامی ادب سے مل کر ایک عالم گیر ادب جنم لے رہا ہے۔
بورژوا طبقہ تمام آلات پیداوار کو تیزی سے ترقی دیتا اور آمدورفت کے وسیلوں کو بے حد آسان بناتا رہا ہے اور ان کے بل پر وہ تمام قوموں حتی کہ انتہائی وحشی قوموں کو بھی تہذیب کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ اس کے تجارتی مال کی ارزانی گولے بارود کا کام کرتی ہے جن سے مار مار کر وہ ہر دیوار چین کو گراد یتا ہے اور ضدی سے ضدی وحشیوں کو جن کے دل سے غیروں کی نفرت کا جذبہ مارے نہیں مرتا، ہار ماننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ تمام قوموں کو مجبور کرتا ہے کہ بورژوا طریقہ پیداوار اختیار کریں یا فنا ہو جائیں۔ وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی اس کی منہ بولی تہذیب کو اپنے یہاں رائج کریں یعنی وہ خود بھی بورژوا بنیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنے سانچے میں ایک دنیا کو ڈھال لیتا ہے۔
بورژوا طبقے نے دیہات کو شہروں کے تابع کر دیا ہے۔ اس نے بڑے بڑے شہر بسائے ہیں۔ دیہات کے مقابلے میں شہری آبادی کو بہت بڑھاوا دیا ہے اور اس طرح آبادی کے ایک بڑے حصے کو دیہاتی زندگی کے گھامڑپن سے چھٹکارا دلادیا ہے۔ جس طرح اس نے دیہات کو شہروں کا دست نگر بنایا، اسی طرح غیرمہذب اور نیم مہذب ملکوں کو مہذب ملکوں کا، کسانوں کی قوموں کو بورژوا قوموں کا، مشرق کو مغرب کا محتاج بنایا۔
بورژوا طبقے ذرائع پیداوار ملکیت اور آبادی کی تتربتر حالت کو دن بدن ختم کرتا جا رہا ہے۔ اس نے کثیر آبادیوں کو اکٹھا کیا ہے۔ ذرائع پیداوار کو مرکزیت بخشی ہے اور ملکیت کو چند ہاتھوں میں بٹور لیا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ سیاسی مرکزیت تھا۔ صوبے جو آزاد تھے یا جن میں کوئی واضح تعلق نہیں تھا، جن کے مفاد، قانون، حکومتیں اور محصول کے طریقے الگ الگ تھے، اب مل کر ایک قوم بن گئے ہیں، جس کی ایک حکومت ہے، قانون کا ایک ہی ضابطہ ہے، ایک قومی طبقاتی مفاد ہے، ایک سرحد اور ایک کسٹم ڈیوٹی ہے۔
بورژوا طبقے نے اپنے یہ مشکل ایک سوبرس کے دور حکومت میں اتنی بڑی اور دیو پیکر پیداواری قوتیں تخلیق کر لی ہیں کہ پچھلی تمام نسلیں بھی نہ کر سکی تھیں۔ قدرت کی طاقتوں پر انسان کی کارفرمائی، مشینیں، صنعت اور زراعت میں کیمیا کا استعمال، دخانی جہازرانی، ریلیں، تاربرقی، کھیتی کے لئے پورے کے پورے براعظموں کی صفائی، نہریں بنا کر دریاؤں کو ملانا اور گویا جادو کے زور سے زمین کا سینہ چیر کر چشم زدن میں بڑی بڑی آبادیوں کا ظہور میں آجانا۔ آج سے پہلے کس زمانے کے لوگوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات آ سکتی تھی کہ اجتماعی محنت کی گود میں ایسی پیداواری طاقتیں پڑی سو رہی ہیں؟
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پیداور اور تبادلہ کے وسیلے، جن کی بنیاد پر بورژوا طبقے نے اپنے آپ کو بنایا، جاگیردار سماج میں پیدا ہوئے تھے۔ پیداور اور تبادلہ کے ان وسیلوں کی نشوونما میں ایک منزل ایسی آئی کہ جاگیردار سماج کے حالات میں جن میں مال کی پیداوار اور اس کا تبادلہ ہوتا تھا، زراعت اور کارخانہ داری صنعت کی جاگیردار تنطیم کے اندر، مختصر یہ کہ جاگیردار رشتوں سے اب بڑھی ہوئی پیداواری قوتوں کا نباہ ہونا ممکن ہو گیا۔ یہ رشتے ان قوموں کے پیروں کی زنجیر بن گئے۔ ان زنجیروں کو توڑنا تھا۔ ان کو توڑ دیا گھا۔
اب آزاد مقابلے نے ان کی جگہ لے لی، اور اپنے حسب حال ایک سماجی اور سیاسی نظام اور بورژوا طبقے اور سیاسی اقتدار بھی ساتھ لیتا آیا۔
اسی قسم کی ایک تبدیلی خود ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہے۔ جدید بورژوا سماج نے گویا جادو کے اندر سے پیداوار اور تبادلے کے عظیم الشان وسیلے کھڑے کر لئے ہیں۔ مگر پیداوار تبادلہ اور ملکیت کے اپنے رشتوں سمیت اس سماج کی حالت اس شعبدہ گر کی سی ہے جس نے اپنے جادوسے شیطانی طاقتوں کو جگا تو لیا ہے مگر اب قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ پچھلے بیسوں برس سے صنعت اور تجارت کی تاریخ، جدید پیداواری قوتوں کی بغاوت کی تاریخ ہے، بغاوت جدید تعلقات پیداوار کے خلاف اور ملکیت کے ان رشتوں کے خلاف جو بورژوا طبقے اور اس کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں ۔ اس سلسلے میں ان تجارتی بحرانوں کا ہی نام لینا کافی ہے جو برابر کچھ وقفے کے بعد لوٹ کر آیا کرتے ہیں اور پورے سماج کی زندگی کو ہر بار پہلے سے بھی بڑے خطرے میں ڈال دیتے ہیں ۔ ان بحرانوں میں ہر بار صرف تیار مال کا ہی نہیں بلکہ پہلے کی ہوئی پیداواری قوتوں کا بھی ایک بڑا حصہ برباد کر دیا جاتا ہے۔ ان بحرانوں میں گویا ایک وبا سی پھیل جاتی ہے، فاضل پیداوار کی وبا، جو پہلے کے تمام زمانوں میں ایک ان ہونی سی بات معلوم ہوتی۔ سماج دفعتاً اپنے آپ کو کچھ دنوں کے لئے بربریت کے عالم میں پاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قحط یا عالم گیر جنگ کی تباہ کاریوں نے تمام وسائل حیات کے دروازے بند کر دیئے ہوں۔ صنعت و تجارت برباد ہوتی نظر آتی ہے۔ اور یہ کیوں؟ اس لئے کہ دولتمند کی برکتوں کی افراط ہے۔ زندگی کے وسائل کی افراط ہے، صنعت کی افراط ہے، تجارت کی افراط ہے۔ سماج کے ہاتھ میں جو پیداواری قوتیں ہیں ان سے اب بورژوا ملکیت کے نظام کی مزید ترقی نہیں ملتی بلکہ اس کے برعکس وہ اتنی طاقتور ہو گئی ہیں کہ اس نظام کے سنبھالے نہیں سنبھلتیں۔ یہ نظام ان کے پیروں کی زنجیر بن جاتا ہے اور جوں ہی کہ وہ ان زنجیروں پر قابو پاتی ہیں پورے بورژوا سماج میں خلل پڑجاتا ہے۔ بورژا ملکیت کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ بورژوا تعلقات کا دامن تنگ ہے کہ وہ خود اپنی پیدا کی ہوئی دولت بھی نہیں سنبھال سکتا ۔ پھر بورژوا طبقہ ان بحرانوں پر قابو کیسے پاتا ہے؟ اس کے لئے ایک طرف نئی منڈیوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور پرانی منڈیوں کا استحصال اور بھی زیادہ شدت سے کیا جاتا ہے۔ یعنی اور بھی زیادہ وسیع اور تباہ کن بحرانوں کے لئے راستہ صاف کیا جاتا ہے اور ان بحرانوں کو روکنے کے وسیلے اور کم کر دئے جاتے ہیں۔
وہ ہتھیار جن سے بورژوا طبقے نے جاگیردار نظام کو زیر کیا تھا، ا ب خود بورژوا طبقے کے خلاف اٹھائے جا رہے ہیں، لیکن بورژوا طبقے نے صر ف وہ ہتھیار ہی نہیں ڈھالے جو اس کی موت کا پیغام لا رہے ہیں، وہ ان آدمیوں کو بھی وجود میں لے آیا ہے جو یہ ہتھیار اٹھائیں گے ، یعنی پرولتاریہ، جدید مزدور طبقہ۔
جس نسبت سے بورژوا طبقے یعنی سرمائے کی ترقی ہوتی ہے اسی نسبت سے پرولتاریہ یعنی جدید مزدور طبقہ ترقی کرتا ہے جو زندہ اسی وقت تک رہ سکتا ہے جب تک اسے کام ملتا رہے اور کام اسی وقت تک ملتا ہے جب تک اس کی محنت سرمایہ کو بڑھاتی ہے۔ یہ مزدور جنہیں اپنے آپ کو فرداًفرداً بیچنا پڑتا ہے، تجارت کی اور سب چیزوں کی طرح ایک جنس تبادلہ ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مقابلے کے تمام ہیرپھیر اور منڈی کے تمام اتارچڑھاؤ کے رحم و کرم پر ہیں۔
مشینوں کے وسیع استعمال اور محنت کی تقسیم کی وجہ سے مزدوروں کا کام اپنی تمام انفرادی خصوصیت کھو چکا ہے اور اسی وجہ سے مزدور کے لئے اس میں کوئی دل کشی باقی نہیں رہی۔ وہ مشین کا دم چھلا بن کر رہ گیا ہے۔ اس کو اب صرف ایک ڈھب جاننا چاہئے جو نہایت سیدھی سادی، نہایت اکتا دینے والے اور نہایت آسانی سے آنے والی چیز ہے۔ چنانچہ مزدور پر لاگت تقریبا تمام تر ان وسائل زندگی تک محدود ہے جو اس کے اپنے گذارے اور افزائش نسل کے لئے ضروری ہیں۔ لیکن کسی جنس کی قیمت اور اس لئے محنت کی قیمت (بعد مارکس نے بتایا کہ مزدور اپنی محنت نہیں بلکہ محنت کی طاقت بیچتا ہے۔ اس سلسلے میں مارکس کی کتاب اجرتی محنت اور سرمایہ پر اینگلز کا مقدمہ پڑھئے۔ (ایڈیٹر) بھی اس کی پیداوار کی لاگت کے برابر ہے۔ اس لئے کام جتنا زیادہ ناپسندیدہ ہوتا جاتا ہے اسی نسبت سے اجرت میں کمی ہوتی جاتی ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ جس نسبت سے مشینوں کااستحصال اور محنت کی تقسیم بڑھتی ہے، اسی نسبت سے مشقت کا بوجھ بڑھتا ہے۔ چاہے وہ کام کے گھنٹے بڑھنے سے ہو، مقررہ وقت میں زیادہ کام لینے کی وجہ سے ہو یا مشین کی رفتار تیز ہوجانے سے۔
جدید صنعت نے اہل حرفہ کے چھوٹے کارخانے کو صنعتی سرمایہ دار کی بڑی فیکٹری میں بدل دیا ہے۔ مزدوروں کے کثیر انبوہ کو فیکٹری میں جمع کرکے فوجی سپاہیوں کی طرح ان کی تنظیم کی ہے۔ افسروں اور حولداروں کا ایک پورا سلسلہ ہے جن کی کمان میں انہیں صعنتی فوج کے عام سپاہیوں کی طرح رکھا گیا ہے۔ وہ صرف بورژواطبقے اور بورژوا ریاست کے غلام نہیں ہیں، وہ ہردن اور ہر گھڑی مشین کی، نگران کار کی اور سب سے بڑھ کر انفرادی طور پر کارخانے کے مالک بورژوا غلامی کرنے ہیں۔ یہ ظالمانہ نظام جس قدر کھلے بندوں نفع خوری کو اپنی غرض و غایت بناتا ہے، اسی قدر قابل نفرت اور تلخ تر ہوتا جاتا ہے۔
جسمانی محنت میں مہارت اور طاقت صرف کرنے کی ضرورت جس قدر کم ہوتی جاتی ہے یعنی دوسرے لفظوں میں جدید صنعت جتنی زیادہ ترقی کرتی ہے اسی قدر عورتوں کا کام مردوں کی جگہ لیتا ہے۔ مزدور طبقے کے لئے عمر اور جنس کی بنا پر امتیاز قائم کرنے کا اب کوئی سماجی جواز باقی نہیں رہا۔ سب محنت کے آلہ کار ہیں جن کی قیمت ان کی عمر اور جنس کے لحاظ سے بڑھتی گھٹتی رہتی ہے۔ جوں ہی کارخانہ دار کے ہاتھوں مزدور کا استحصال کچھ دیر کے لئے رکتا ہے اوراسے اپنی اجرت کے نقد پیسے ملتے ہیں، ویسے ہی بورژوا طبقے کے دوسرے حصے کے مالک مکان، دوکاندار، ساہوکار وغیرہ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ درمیانی طبقے کے نچلے حصے چھوٹے کارخانہ دار، چھوٹے تاجر اور عموما کاروبار چھوڑ بیٹھنے والے تاجر ، دست کار اور کسان یہ سب گرتے گرتے پرولتاریہ میں جا ملتے ہیں۔ کچھ تو اس وجہ سے کہ جس پیمانے پر جدید صنعت چلائی جاتی ہے اس کے لئے ا ن کا حقیر سرمایہ کفایت نہیں کرتا اور بڑے سرمایہ داروں کے مقابلے میں ان کی لٹیا ڈوب جاتی ہے۔ اور کچھ اس وجہ سے کہ ان کا مخصوص ہنر اب پیداوار کے نئے طریقوں کی بدولت کسی کام کا باقی نہیں رہتا ۔ اس طرح آبادی کے ہر طبقے سے لوگ بھرتی ہو کر پرولتاریہ میں آتے رہتے ہیں۔ مزدور طبقہ نشوونما کی کئی منزلوں سے گزرتا ہے ۔ پیدا ہوتے ہی بورژوا طبقے سے اس کی جدوجہد شروع ہوجاتی ہے۔ شروع شروع میں کسی ایک بورژوا کے خلاف جو براہ راست ان کا استحصال کرتا ہے، اکےدکے مزدور مقابلے پر اترتے ہیں۔ پھر ایک فیکٹری میں کام کرنے والے اور اس کے بعد ایک علاقے میں ایک پوری صنعت کے مزدور۔ ان کے حملے کا رخ صرف بورژوا تعلقات پیداوار کے خلاف نہیں بلکہ خود آلات پیداوار کے خلاف ہوتا ہے۔ وہ باہر سے آئی ہوئی مصنوعات کو جو ان کی محنت سے مقابلہ کرتی ہیں، برباد کرنے لگتے ہیں۔ وہ مشینوں کو پاش پاش کر دیتے ہیں۔ کارخانوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ اور عہد وسطی کے کاریگروں کے کھوئے ہوئے مرتبے کو زبردستی لوٹا لانا چاہتے ہیں۔
اس وقت مزدور تتربتر کی حالت میں سارے ملک میں بکھرے ہوتے ہیں۔ آپس کے مقابلے سے ان کا شیرازہ منتشر رہتا ہے۔ اگر کہیں کہیں وہ مل کر زیادہ گٹھی ہوئی جماعت بناتے ہیں تو یہ ابھی تک ان کے اپنے عملی اتحاد کا نتیجہ نہیں بلکہ بورژوا طبقے کے اتحاد کا نتیجہ ہے۔ یہ طبقہ خود اپنا سیاسی مقصد پورا کرنے کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ پورے مزدور طبقے کو حرکت میں لائے اور اس میں اس وقت تک ایسا کرنے کی قدرت بھی ہوتی ہے۔ اس لئے اس مرحلے پر مزدور طبقہ اپنے دشمنوں سے نہیں بلکہ اپنے دشمنوں کے دشمنوں سے مطلق العنان بادشاہت کی بچی کھچی نشانیوں سے، زمین داروں سے غیرصنعتی بورژوا اور پیٹی بورژوا سے لڑتا ہے۔ غرضیکہ تاریخ کی ساری حرکت کی باگ ڈور بورژوا طبقے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔ اور ان حالات میں جو فتح حاصل ہوتی ہے وہ بورژوا طبقے کی فتح ہوتی ہے۔
لیکن صنعت کی ترقی کے ساتھ مزدور طبقہ صرف تعداد میں نہیں بڑھتا بلکہ وہ بڑی تعداد میں مرکوز ہونے لگتا ہے اس کی طاقت بڑھتی ہے اور اسے روزبروز اپنی طاقت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ جیسے جیسے مشین محنت کے تمام امتیازوں کو مٹاتی جاتی ہے اور تقریباً ہر جگہ اجرتوں کو ایک ہرادنی سطح پر لے آتے ہیں، اسی نسبت سے مزدور طبقے کی صفوں کے اندر مختلف مفاد اور زندگی کی مختلف حالتوں میں یکسانیت پیدا ہوتی ہے۔ بورژوا طبقے میں بڑھتا ہوا مقابلہ اور اس کی بدولت تجارتی بحران مزدوروں کی اجرتوں میں آئے دن اتار چڑھاؤ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ مشینوں میں نت نئے سدھار اور ان کی تیز تر ترقی کی وجہ سے مزدوروں کی روزی دن بدن خطرے میں پڑجاتی ہے۔ اکے دکے مزدور وں اور بورژوا لوگوں کی جھڑپیں روزبروز دو طبقوں کی ٹکر کی صورت اختیار کرتی جاتی ہیں اور تب بورژوازی کے خلاف مزدور اپنی انجمنیں (ٹریڈ یونینیں) بنانے لگتے ہیں۔ اجرت کی شرح کو قائم رکھنے کے لئے وہ آپس میں مل جاتے ہیں۔ اپنی قیمتی بغاوتوں کے لئے پہلے بندوبست کرنے کی غرض سے وہ مستقل انجمنیں قائم کرتے ہیں۔ کہیں کہیں یہ ٹکر کھلی بغاوت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
کبھی کبھار مزدوروں کی جیت ہو تی ہے مگر چند روزہ ان کی جدوجہد کا اصلی پھل فوری کامیابیوں میں نہیں بلکہ مزدوروں کے دن بدن بڑھتے ہوئے اتحاد میں ہے۔ اس اتحاد کو آمد ورفت کے ان ترقی یافتہ وسیلوں سے بڑی مدد ملتی ہے جنہیں جدید صعنت نے جنم دیا ہے اور جن کی مدد سے مختلف جگہوں کے مزدور وں میں ربط پیدا ہوتا ہے۔ اور وہی ربط ہے جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تا کہ تمام مقامی جدوجہد جس کی نوعیت سب جگہ ایک سی ہے ایک مرکز پر لائی جا سکے۔ لیکن ہر طبقاتی جدوجہد ایک سیاسی جدوجہد ہے۔ اور وہ اتحاد جسے حاصل کرنے کے لئے عہد وسطی کے شہریوں کو اپنی خستہ حال شاہراہوں کی وجہ سے صدیاں درکار تھیں، جدید مزدور طبقے نے ریلوں کی برکت سے چند برسوں میں قائم کر لیا ہے۔
ایک طبقے کی صورت میں اور اس کے نتیجے کے طور پر ایک سیاسی پارٹی میں مزدور طبقے کی یہ تنظیم خود مزدوروں کے آپس کے مقابلے کی بدولت برابر لٹتی رہتی ہے۔ لیکن ہر بار وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ، زیادہ پائیدار اور زیادہ طاقتور ہو کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور خود بورژوا طبقے کے اندر کی پھوٹ سے فائدہ اٹھا کر وہ مزدوروں کے انفرادی مفاد قانون کی نظر میں تسلیم کرالیتی ہے۔ چناچہ انگلینڈ میں دس گھنٹے کام کا قانون اسی طر ح منظور ہوا تھا۔
فی الجملہ پرانے سماج کے طبقوں کی آپس میں ٹکریں مزدور طبقے کی نشوونما میں کئی طرح سے مددگار ہوتی ہیں۔ بورژوا طبقہ اپنے آپ کو مسلسل جدوجہد میں مبتلا پاتا ہے۔ شروع میں طبقہ امرا کے خلاف پھر بورژوا طبقے کے ان حصوں کے خلاف جن کی مفاد صنعت کی ترقی سے ٹکرانے لگتے ہیں اور ساری بدیسی بورژوا زی کے خلاف تو ہر زمانے میں۔ ان سب لڑائیوں میں وہ مجبور ہوتا ہے کہ مزدور طبقے سے اپیل کرے، اس سے مدد مانگے اور اس طرح اسے سیاست کے میدان میں کھینچ لائے۔ غرضیکہ خود بورژوا طبقے پرولتاریہ کو اپنی سیاسی اور عام تعلیم کی مبادیات سے لیس کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ خود پرولتاریہ کے ہاتھوں میں بورژوا طبقے سے لڑنے کے ہتھیار دیتا ہے۔
پھر ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ صنعت کی ترقی سے حکمران طبقوں کے بعض پورے کے پورے گروہ تباہ ہو کر مزدور طبقے میں آ ملتے ہیں۔ یا کم از کم ان کے حالات زندگی کے تباہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ان سے بھی مزدور طبقے کو روشن خیالی اور ترقی کی نئی مبادیات ملتی ہیں۔
بالآخرجب طبقاتی جدوجہد کے فیصلہ کن لمحے قریب آتے ہیں تو حکمران طبقے کی اندر اور در اصل پورے پرانے سماج کے اندر انتشار کا یہ سلسلہ اتنی شدید اورنمایاں صورت اختیار کر لیتا ہے کہ حکمران طبقے کا ایک مختصر گروہ اس سے ٹوٹ کر الگ ہو جاتا ہے اور انقلابی طبقے میں آملتا ہے۔ اس طبقے میں جس کے ہاتھ میں مستقبل کی باگ ڈور ہے۔ جس طرح اس سے پہلے دور میں امرا کا ایک حصہ بورژوا طبقے سے آملا تھا اسی طرح آج بورژوا طبقے کا ایک حصہ پرولتاری طبقے کا ساتھ اختیار کرتا ہے اور خاص کر بورژوا اہل فکر کا وہ حصہ جو اس بلندی پر پہنچ گیا ہے کہ بحیثیت مجموعی پورے تاریخی ارتقا کو نظریاتی طور سے سمجھ سکے۔
بورژوا طبقے کے روبرواس وقت جتنے کھڑے ہیں ان سب میں ایک پرولتاریہ ہی حقیقت میں انقلابی ہے۔ دوسرے طبقے جدید صنعت کے مقابلے میں زوال پذیر اور بالآخر ناپید ہو تے جاتے ہیں۔ پرولتاریہ اس کی مخصوص اور لازمی پیداوار ہے۔
درمیانی پرت: چھوٹے کارخانہ دار دکاندار دست کار کسان سب ہی بورژوا طبقے سے لڑتے ہیں تا کہ درمیانی پرت کی حیثیت سے اپنی ہستی کو مٹنے سے بچائیں۔ اس لئے وہ انقلابی نہیں قدامت پرست ہیں۔ اتنا ہی نہیں وہ رجعت پسند بھی ہیں۔ کیونکہ وہ تاریخ کی گنگا کو الٹا بہانا چاہتے ہیں۔ اگر کبھی وہ انقلابی بنتے ہیں تو صرف یہی دیکھ کر کہ ان کے لئے پرولتاریہ کے ساتھ ملنے کی گھڑی قریب آ پہنچی ہے کہ وہ اپنے حال کے نہیں مستقبل کے مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔ کہ پرولتاریہ کے نقطہ نظر پر پہنچنے کے لئے خود اپنے نقطہ نظر سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ وہ Lumpen-Proletariat (سرمایہ دارانہ سماج میں طبقات سے ٹوتی ہوئی تہہ جو پیداوار ی عوامل سے نکالے ہوئے لوگوں، بھک منگوں، آوارہ گردوں، رنڈیوں اور مجرموں وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔) وہ پڑی پڑی سڑنے والی پیداوار جسے پرانے سماج کی سب سے نچلی تہیں چھوڑ گئی ہیں ، کہیں کہیں پرولتاری انقلاب کی تحریک کے بہاؤ میں آ جائے۔ لیکن اس کی زندگی کے حالات ایسے ہیں کہ اس میں رجعت پرستوں کی سانٹھ گانٹھ میں بھاڑے کا ٹٹو بننے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔
پرولتاریہ کے حالات زندگی میں پرانے سماج کے حالات زندگی ختم ہو جاتے ہیں۔ پرولتاری کی کوئی ملکیت نہیں۔ اپنے بیوی بچوں سے اس کے تعلقات میں اور بورژوا خانگی زندگی میں اب کوئی چیز مشترک نہیں رہتی۔ جدید صنعتی محنت نے، سرمائے کی جدید غلامی نے، جو انگلینڈ اور فرانس میں امریکہ اور جرمنی میں سب جگہ ایک ہے، اس سے قومی کردار کی ہر نشانی چھین لی ہے۔ قانون اخلاق مذہب سب اس کے لئے بورژوا طبقے کے ڈھکوسلے سے زیادہ نہیں ہیں جن میں ایک ایک کے پیچھے بورژوا مفاد گھات لگائے بیٹھے ہیں۔
پہلے کے تمام طبقوں نے جب کبھی غلبہ پایا تو اپنے لئے حاصل کئے ہوئے مرتبے کو پائیدار بنانے کے لئے پورے سماج کو اپنے نظام تصرف کے تابع کردینا چاہا۔ پرولتاری جب تک خود اپنے سابقہ طریقہ تصرف کو اور اس طرح تصرف کے ہر سابقہ طریقے کو منسوخ نہ کر ڈالے سماج کی پداواری قوتوں کا مالک نہیں بن سکتا۔ اس کا اپنا کچھ نہیں ہے جسے قائم رکھنا ہو اور جس کی حفاظت کرنی ہو۔ اس کا منصب ذاتی ملکیت کے جملہ سابقہ تحفظات اور ضمانتوں کو مٹانا ہے۔
پہلے کی تمام تاریخی تحریکیں اقلیتوں کی تحریکیں تھیں یا اقلیتوں کے حق میں تھیں۔ مزدور تحریک بہت بڑی اکثریت کے حق میں ، بہت بڑی اکثریت کے مفادات کے لئے آزاد تحریک ہے۔ پرولتاریہ موجودہ سماج میں سب سے نیچے درجے پر ہے اور آج تک مروجہ سماج کے بالائی پرتوں کے تمام تار و پود نہ بکھیر دئے جائیں وہ نہ تو جنبش کر سکتا ہے اور نہ سر اٹھا سکتا ہے۔
بورژوا طبقے کے خلاف پرولتاریہ کی جدوجہد معنوعی اعتبار سے تو نہیں، مگر اپنی صورت میں شروع شروع میں ایک قومی جدوجہد ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر ملک کے پرولتاریہ کو سب سے پہلے بورژوا طبقے سے نپٹنا پڑتا ہے۔
پرولتاریہ کی نشوونما کے بالکل عام مدارج بیان کرتے ہوئے ہم نے اس خانہ جنگی کا خاکہ کھینچا تھا جو موجودہ سماج میں کسی قدر پوشیدہ طور پر زور و شور سے جاری ہے۔ حتی کہ ایک منزل اپنی آتی ہے جبکہ یہ جنگ کھلم کھلا انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور بورژوا طبقے کا تختہ زبردستی الٹ کر پرولتاریہ کے اقتدار کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ آج تک ہرسماج کی بنیاد ظالم اور مظلوم طبقوں کے تصادم پر رہی ہے۔ لیکن کسی طبقے پرظلم کرنے کے لئے بھی ایسے حالات مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں طبقہ کم از کم اپنی غلامانہ زندگی کو برقرار رکھ سکے۔ زرعی غلامی کے زمانے میں زرعی غلام بڑھتے بڑھتے کمیون کار کن بنا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے پیٹی بورژوا آدمی جاگیردارانہ مطلق العنانی کے جوئے تلے ترقی کر کے بورژوا بن گیا۔ اس کے برعکس جدید مزدور صنعت کے فروغ کے ساتھ اوپر اٹھنے کے بجائے اپنے طبقے کے موجودہ معیار زندگی سے بھی نیچے گرتا جا رہا ہے۔ وہ نادار ہوتا جا رہا ہے اور ناداری آبادی اور دولت دونوں سے زیادہ تیزی سے بڑھتی ہے۔ اور اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بورژوا طبقہ اب اس قابل نہیں رہا کہ سماج پر حکمرانی کر سکے اور اپنے طقے کے حالات زندگی کو ہمہ گیر قانون کا درجہ دے کر پورے سماج پرچساں کر سکے۔ وہ حکومت کرنے کا اہل نہیں رہا کیونکہ وہ اپنے غلاموں کو اپنی غلامی میں بھی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا کیونکہ وہ انھیں اس قدر نیچے گرنے سے نہیں روک سکتا کہ بجائے خود ان سے روزی حاصل کرنے کے اسے خود انہیں روتی دینی پڑتی ہے۔ سماج اب اس بورژوا طبقے کے تحت رہ سکتا ۔ دوسرے لفظوں میں اب اس کے وجود کو سماج کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رہی۔
بورژوا اپنے طبقے کے وجود اور اقتدار کی لازمی شرط یہ ہے کہ سرمایہ برابر بنتا اور بڑھتا رہے۔ سرمائے کے وجود کے لئے اجرتی محنت شرط ہے۔ اجرتی محنت خصوصاً تمام مزدوروں کے آپس کے مقابلے پر منحصر ہے۔ صنعت کی ترقی سے جس کو بورژوا طبقے کے ہاتھوں بلا ارادہ فروغ ہوتا ہے۔ مزدور وں کی ایک دوسرے سے علیحدگی دور ہوتی ہے ۔ جو باہمی مقابلے کا نتیجہ تھی اور اس کے بجائے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان میں انقلابی ایکا پیدا ہونے لگتا ہے۔ غرضیکہ جدید صعنت کی ترقی سے وہ بنیاد ہی غارت ہو جاتی ہے جس پر بورژا طبقہ مال پیدا کرتا اور اس کو تصرف میں لاتا ہے۔ لہذا بورژوا طبقے نے سب سے بڑھ کر جن کو پید ا کیا وہ اس کی اپنی قبر کھودنے والے ہیں۔ اس کا زوال اور پرولتاریہ کی فتح لابدی ہے۔
2۔ پرولتاریہ اور کمیونسٹ
بحیثیت مجموعی پرولتاریوں سے کمیونسٹوں کا کیا تعلق ہے؟
کمیونسٹ ، مزدور طبقے کی دوسری پارٹیوں کے خلاف کوئی الگ پارٹی نہیں بناتے۔
بحیثیت مجموعی پرولتاری طبقے کے مفاد کے سوا اور اس سے جدا ان کا کوئی مفاد نہیں۔
وہ اپنے جداگانہ فرقہ پرور اصول قائم نہیں کرتے جس سے مزدور تحریک کو کوئی خاص شکل دی جائے اور کسی خاص سانچے میں ڈھالا جائے۔
کمیونسٹوں کا امتیاز مزدور طبقے کی دوسری پارٹیوں سے صرف یہ ہے کہ (1) مختلف ملکوں کے مزدوروں کی قومی جدوجہد میں وہ بلاامتیاز قومیت پورے مزدور طبقے کے مشترک مفاد پر زور دیتے اور ان کو نمایاں کرتے ہیں۔ (2) بورژوا طبقے کے خلاف مزدور طبقے کی جدوجہد اپنی نشوونما کے جن مرحلوں سے گذرتی ہے ان میں وہ ہر جگہ اور ہمیشہ بحیثیت پوری تحریک کے مفاد کی ترجمانی کرتے ہیں۔
چناچہ ایک طرف جہاں تک عمل کا تعلق ہے ، کمیونسٹ ہر ملک کی مزدور پارٹیوں میں سب سے اگوا اور ثابت قدم دستہ ہیں، وہ دستہ جو ہمیشہ اوروں کو آگے بڑھاتا چلتا ہے، اور دوسری طرف جہا ں تک نظریے کا تعلق ہے، عام مزدوروں پر ان کو فوقیت یہ ہے کہ وہ مزدور تحریک کا آگے بڑھنے کا راستہ پہچانتے ہیں۔ اس کے حالات اور آخری عام نتیجوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
کمیونسٹوں کا فوری مقصدو ہی ہے جو مزدوروں کی سب ہی دوسری پارٹیوں کا یعنی یہ کہ مزدوروں کا ایک طبقہ بنے، بورژوا طبقے کا غلبہ ختم کیا جائے اور پرولتاریہ سیاسی اقتدار پر قبضہ کرے۔
کمیونسٹوں کے نظریاتی نتیجے ہر گز کسی ایسے خیالات یا اصولوں پر مبنی نہیں ہیں، جنہیں کسی عالم گیر اصلاح کا خواب دیکھنے والے مصلح نے کھوج نکالا ہو یا جو اس کےدماغ کی اپج ہو۔
وہ تو فقط ان حقیقی تعلقات کو عام الفاظ میں پیش کرتے ہیں جو موجود طبقاتی جدوجہد سے پیدا ہوئے ہیں، ایک ایسی تاریخی تحریک سے جو ہماری آنکھوں کے سامنے جاری ہے۔ ملکیت کے مروجہ تعلقات کو مٹانا کمیونزم کی کوئی امتیازی صفت نہیں ہے۔
گذشتہ زمانے میں تاریخی حالات کے بدلنے پر ملکیت کے سارے تعلقات میں برابر تاریخی ردبدل ہوتا رہا ہے۔ مثلا انقلاب فرانس نے بورژوا ملکیت کے حق میں جاگیردار ملکیت کو مٹا دیا۔
کمیونزم کی امتیازی صفت عام طور پر ملکیت کو نہیں بلکہ بورژوا کو مٹانا ہے۔
لیکن جدید بورژوا ذاتی ملکیت مال کو پیدا کرنے اور تصرف میں لانے کے اس نظام کا آخری اور سب سے مکمل اظہار ہے جو طبقاتی اختلافات اور چند لوگوں کے ہاتھوں اکثریت کے استحصال پر مبنی ہے۔
ان معنوں میں کہا جا سکتا ہےکہ کمیونسٹوں کا نظریہ مختصر لفظوں میں ذاتی ملکیت کو مٹانا ہے۔
ہم کمیونسٹوں پر الزام ہے کہ ہم انسان کی انفرادی محنت سے انفرادی ملکیت حاصل کرنے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ یہی ملکیت ہی تمام شخصی آزادی،سرگرمی اورخودمختاری کی بنیاد ہوتی ہے ۔
گاڑھے پسینے کی کمائی ،اپنے دست وبازو سے پیدا کی ہوئی ملکیت!
کیا آپ کی مراد چھوٹے دستکاراور چھوٹے کسان کی ملکیت سے ہے جو کہ بورژوا ملکیت سے پہلے ملکیت کی صورت تھی؟
اسے مٹانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صنعت کی ترقی بڑی حد تک اسے مٹا چکی ہے اور آئے دن مٹاتی جاتی ہے۔
یا شاید آپ کی مراد جدید بورژوا ذاتی ملکیت سے ہے ؟
لیکن کیا اجرتی محنت نےمزدور کی محنت نے اس کیلئے کوئی ملکیت پیدا کی ہے ؟بالکل نہیں۔ اس سے تو صرف سرمایہ پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ وہ ملکیت ہے جو کہ اجرتی محنت کا استحصال کرتی ہے اور جس کے بڑھنے کی واحد شرط یہی ہوتی ہے کہ مزید استحصال کیلئے برابر اور لگاتار اجرتی محنت مہیا ہوتی رہے۔ ملکیت اپنی موجودہ صورت میں سرمایہ اور اجرتی محنت کے تصادم پر مبنی ہے۔ آئیے ہم اس تصادم کے دونوں پہلوؤں پر غوکر کریں۔
سرمایہ دار ہونے کا مطلب پیداوار میں محض ذاتی نہیں بلکہ سماجی حیثیت کا مالک ہونا ہے۔ سرمایہ اجتماعی پیداوار ہے اور بہت سے انسانوں کی متحدہ کوششوں سے بلکہ اگرآخرتک نظر دوڑائی جائے تو یہ سماج کے سبھی ارکان کی متحدہ کوششوں سے ہی حرکت میں لایاجاسکتاہے ۔
اس لئے سرمایہ کوئی شخصی نہیں بلکہ سماجی طاقت ہے ۔
لہٰذا سرمایہ کو جب تک مشترکہ ملکیت یعنی سماج کے تمام ارکان کی ملکیت بنایا جاتاہے توا س سے انفرادی ملکیت سماجی ملکیت میں نہیں بدلتی، بلکہ صرف ملکیت کی سماجی حیثیت بدل جاتی ہے۔
اس کی طبقاتی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔
اب ہم اجرتی محنت پر نظر ڈالیں۔
اجرتی محنت کی اوسط قیمت کم سے کم اجرت ہی ہے اور اس میں نان نفقہ کی صرف اتنی ہی مقدار شامل ہے جو مزدور کو مزدور بنا کر کسی طرح زندہ رکھنے کےلئے قطعی ضروری ہے۔ چناچہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور اپنی محنت کے ذریعہ جو کچھ تصرف میں لاتا ہے وہ محض اسے زندہ رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ہمارا یہ منشا ہر گز نہیں ہے کہ محنت کی پیداوار کو ذاتی تصرف میں لانے کا یہ سلسلہ بند کر دیں۔ اس تصرف کا مقصد زندگی کو قائم رکھنا ہے۔ اور اس میں فاضل کچھ بچتا ہی نہیں جس کے بل پر دوسروں کی محنت قابو میں لائی جا سکے ۔ ہم مٹانا چاہتے ہیں محض اس تصرف کی ناگفتہ بہ حالت کو جس کے تحت مزدور زندہ رہتا ہے فقط سرمایہ کو بڑھانے کے لئے، اور اس کو زندہ اسی وقت تک رہنے دیا جاتا ہے جب تک حکمراں طبقے کے مفاد کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
بورژوا سماج میں زندہ محنت محض ایک ذریعہ ہے جمع محنت کو بڑھاوا دینے کا۔ کمیونسٹ سماج میں جمع کی ہوئی محنت ایک ذریعہ ہو گی جس سے مزدور زندگی میں نئی وسعتیں پیدا کی جائیں گی۔ اسے زیادہ پرمست بنایا جائے گا اور ترقی دی جائے گی۔
مختصر یہ کہ بورژوا سماج میں حال پر ماضی حاوی ہے۔ کمیونسٹ سماج میں ماضی پر حال حاوی ہوگا۔ بورژوا سماج میں سرمایہ آزاد ہے اور اس کی اپنی انفرادی ہستی ہے۔ یہاں زندہ انسان محکوم ہے اس کی کوئی ہستی نہیں۔
اور اس صروت حال کا مٹ جانا، بورژوا طبقے کی زبان میں، انفرادیت اور آزادی کا مٹ جانا ہے۔ اور بات ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا مقصد بورژوا انفرادیت، بورژوا خودمختاری اور بورژوا آزادی کو مٹادینا ہے۔
پیداوار کی موجودہ بورژوا حالتوں میں آزاد ی کا مطلب ہے تجارت کی آزادی۔ بیچنے اور خریدنے کی آزادی۔
لیکن اگر خرید و فروخت نہ رہے تو خریدو فروخت کی آزادی بھی نہیں رہے گی۔ خرید و فروخت کی آزادی کی یہ باتیں عموماً آزادی کے بارے میں ہمارے بورژوا طبقے کے یہ تمام بڑے بڑے بول اگر کوئی معنی رکھتے ہیں تو صرف پابند خریدوفروخت اور عہد وسطی کے مظلوم تاجروں کے مقابلے میں، مگر کمیونزم کے مقابلے میں، جبکہ خرید و فروخت اور تجارت مٹ جائے گی، پیداوار کے بورژوا تعلقات اور خود بورژوا طبقہ مٹ جائے گا، یہ باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔
آپ حواس باختہ ہیں کہ ہم ذاتی ملکیت کو مٹانے کے در پے ہیں۔ لیکن آپ کے موجودہ سماج میں دس میں نو آدمیوں کے لئے ذاتی ملکیت پہلے ہی مٹ چکی ہے۔ اور تھوڑے سے آدمیوں کے لئے جو رہ گئی ہے تو اسی وجہ سے کہ دس میں نو اس سے محروم ہیں۔ آپ کے الزام کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملکیت کی وہ صورت مٹا دینا چاہتے ہیں جس کے قائم رکھنے کی ضروری شرط یہ ہے کہ سماج کی بہت بڑی اکثریت کے پاس کوئی ملکیت نہ ہو۔
مختصر یہ کہ آپ کو شکایت ہے کہ ہم آپ کی ملکیت مٹا دینا چاہتے ہیں۔ بجا ہے۔ ہمارا بالکل یہی ارادہ ہے۔ جس دن سے محنت کو سرمایہ، زر یا لگان میں نہیں بدلا جا سکے گا، اسے ایسی سماجی قوت کی شکل نہیں دے جا سکے گی، جسے کوئی اپنا اجارہ بنا سکے، یعنی جس دن سے انفرادی ملکیت بورژواملکیت میں تبدیل نہیں ہو سکے گی اس دن سے آپ کا خیال ہے انفرادیت ناپید ہو جائے گی۔
پھر تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ’’فرد‘‘ سے آپ کا مطلب ہر شخص نہیں صرف بورژوا ہے، درمیانی طبقے کا صاحب جائداد شخص۔ اور بلا شبہ اس شخص کو ختم کر دینا چاہئے۔
سماج کی پیداوار کو اپنے تصرف میں لانے کے حق سے کمیونزم کسی انسان کو محروم نہیں کرتی۔ وہ انسان کو صرف اس اختیار سے محروم کرنا چاہتی ہے جس کی بدولت وہ اس تصرف کے ذریعہ دوسروں کی محنت کو اپنا غلام بناتا ہے۔
اعتراض کیا جاتا ہے کہ ذاتی ملکیت کے مٹتے ہی سارے کام کاج بند ہو جائیں گے اور ہر آدمی پر کاہلی سوار ہو جائے گی۔
اس اعتبار سے تو بورژوا سماج کو محض کاہلی کے ہاتھوں آج سے بہت پہلے فنا کے گھاٹ اترنا چاہئے تھا کیونکہ اس سماج میں جو لوگ کام کرتے ہیں انہیں کچھ ملتا اور جنہیں ملتا ہے وہ کام نہیں کرتے۔ یہ اعتراض اسی بات کو دوسرے لفظوں میں دہراتا ہے کہ سرمایہ نہیں رہے گا تو اجرتی محنت بھی نہیں رہے گی۔
مادی پیداوار کے کمیونسٹ طریقہ پیدائش اور تصرف کے خلاف یہ تمام اعتراضات اسی طرح سے ذہنی پیداوار کے کمیونسٹ طریقہ پیدائش اور تصرف کے خلاف پیش کئے گئے ہیں۔ بورژوا کی نظر میں جس طرح طبقاتی ملکیت کا مٹنا سرے سے پیداوار کا مٹ جانا ہے، اسی طرح طبقاتی تہذیب کا مٹ جانا ان کے خیال میں ساری تہذیب کا مٹ جانا ہے۔
وہ تہذیب جس کے مٹنے پر وہ آنسو بہاتے ہیں، انسان کی بہت بڑی اکثریت کو محض مشین کی طرح حرکت کرنا سکھاتی ہے۔
بورژوا ملکیت کو مٹانے کی ہماری تجویز کو اگر آپ آزادی، تہذیب، قانون وغیرہ کے بورژوا تصورات کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں تو ہم سے بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں ۔ آپ کے خیالات بجائے خود بورژوا پیداوار اور بورژوا ملکیت تعلقات کا نتیجہ ہیں۔ اسی طرح جیسے آپ کا فلسفہ قانون اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ کے طبقے کی مرضی کو سب کے لئے قانون بنا دیا گیا اور وہ مرضی ایسی ہے جس کی اصلی نوعیت اور میلان آپ کے طبقے کے اقتصادی حالات زندگی سے متعین ہو ا ہے۔
یہ خود غرض غلط خیالی جو آپ کو ترغیب دیتی ہے کہ آپ اپنے پیداواری تعلقات اور ملکیت کے رشتوں کو ، جو تاریخی ہیں اور پیداوار کی ترقی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، قدرت اور عقل کے ابدی قوانین میں ڈھالیں۔ یہ ایسی غلط خیالی ہے جس میں آپ بھی پہلے کے تمام حکمران اور فنا ہو جانے والے طبقوں کی طرح مبتلا ہیں۔ قدیم ملکیت کے سلسلے میں آپ جو کچھ صاف اور دیکھتے ہیں۔ جاگیردار ملکیت کے بارے میں آپ جس بات کو مانتے ہیں، وہی بات آپ ملکیت کی اپنی بورژوا صورت کے بارے میں ماننے سے معذور ہیں۔
خاندان کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ بڑے سے بڑے انتہا پسند بھی کمیونسٹوں کی اس شرمناک تجویز پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے کا خاندان بورژوا خاندان آخر کس بنیاد پر قائم ہے؟ سرمایہ پر ذاتی منافع پر۔ اپنی مکمل ترین صورت میں یہ خاندان صرف بورژوا طبقے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک طرف مزدور بے خاندان رہنے پر مجبور ہیں اور سربازار عصمت فروشی ہوتی ہے۔
بورژوا خاندان کا یہ پہلو جب نہیں رہے گا تو وہ خاندان آپ ہی آپ مٹ جائے گا اور سرمایہ کے مٹنے ہی دونوں مٹ جائیں گے۔
کیا آپ کا الزام ہے کہ ہم ماں باپ کو اپنے بچوں کے استحصال سے روکنا چاہتے ہیں؟ ہم اپنا یہ جرم مانتے ہیں۔
لیکن آپ کہیں گے کہ ہم سب سے قابل احترام رشتوں کو برباد کرنے کے درپے ہیں کیونکہ ہم گھریلو تعلیم کی جگہ سماجی تعلیم جاری کرنا چاہتے ہیں۔
اور آپ کی تعلیم؟ کیا وہ بھی سماجی نہیں ہے؟ کیا وہ بھی ان سماجی حالات سے متعین نہیں ہوتی ہے جن میں آپ وہ تعلیم دیتے ہیں؟ کیا اس میں بھی اسکول وغیرہ کے ذریعہ سماج کی براہ راست یا بالواسطہ دست اندازی نہیں ہوتی ؟ تعلیم میں سماج کی مداخلت کمیونسٹوں نے ایجاد نہیں کی۔ وہ صرف اس مداخلت کی نوعیت کو بدلنا اور تعلیم کو حکمراں طبقے کے اثر سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔
خاندان اور تعلیم کے بارے میں ماں باپ اور بچوں کے مقدس رشتے کے بارے میں بورژوا شورغوغا اسی قدر نفرت انگیز ہوتا جاتا ہے جس قدر جدید صنعت کے اثر سے مزدوروں میں تمام خاندانی بندھن ٹوٹتے جاتے ہیں اور ان کے بچے تجارت کی جنس اور محنت کا اوزار بنتے جاتے ہیں۔
لیکن بورژوا ایک آواز سے چیخ اٹھتا ہے کہ تم کمیونسٹ تو عورتوں کو بھی ساجھے کی ملکیت بنا دو گے۔
بورژوا کی نظر میں اس کی بیوی کی حیثیت بھی پیداوار کے ایک آلے سے زیادہ نہیں۔ پھر جب وہ سنتا ہے کہ آلات پیداوار کا استحصال ساجھے میں کیا جائے گا توقدرتاً اس کے سوا کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ عورتوں کا بھی یہی حشر ہو گا۔
اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ اصل مقصد عورتوں کی اس حیثیت کا خاتمہ کرنا ہے جس میں وہ صرف پیداوار کا آلہ کار بن کر رہ گئی ہیں۔ پھر اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے بورژووا پاک دامنی کے جوش میں عورتوں کی ساجھی داری پر ناک بھوں چڑھائیں اور ظاہر یہ کریں کہ کمیونسٹ بھلے ہی کھلے بندوں اور قانوناً اس کو رائج کر یں گے اس کا رواج تو بہت پرانے زمانے سے چلا آتا ہے۔
زنان بازاری کا تو کہنا ہی کیا، جب اپنے مزدوروں کی بہو بیٹیوں سے بھی جی نہیں بھرتا تو ہمارے بورژوا ایک دوسرے کی بیویوں سے ناجائز تعلق قائم کر کےانتہائی مسرت حاصل کرتے ہیں۔
بورژواشادی در اصل ساجھے میں بیویوں کے رکھنے کا دستور ہے اور اس لئے کمیونسٹوں پر بفرض محال بڑے سے بڑا الزام کوئی ہو سکتا ہے تو یہی کہ وہ اس منافقت بھری اور پوشیدہ ساجھے داری کے بدلے عورتوں کی اعلانیہ قانونی ساجھے داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اور اصل حقیقت ظاہر کہ جب موجودہ تعلقات پیداور مٹیں گے تو اس کے ساتھ عورتوں کو ساجھے میں رکھنے کا دستور، یعنی بازاری یا خانگی عصمت فروشی بھی، جو ان تعلقات کا نتیجہ ہے، مٹ جائے گی۔
پھر کمیونسٹوں پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ وطن اور قومیت کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔
مزدوروں کا کوئی وطن نہیں۔ اور جو ان کے پاس ہے نہیں، اسے ان سے کون چھین سکتا ہے۔ مزدور طبقے کو چونکہ سب سے پہلے سیاسی اقتدار حاصل کرنا ہے ترقی کر کے قوم کا اگوا طبقہ بننا ہے۔ بلکہ خود قوم بننا ہے۔ اس لئے اس حد تک وہ خود قوم ہے مگر اس لفظ کا وہ مفہوم نہیں جو بورژوا سمجھتے ہیں۔
بورژوا طبقے کی نشوونما تجارت کی آزادی عالم گیر منڈی طریقہ پیداوار اور اس سے متعلقہ حالات زندگی دونوں کی یکسانیت روزبروز قومی امتیاز اور اختلافات کو مٹاتی جاتی ہے۔
پرولتاریہ کا اقتدار قائم ہونے پر وہ اور تیزی سے مٹنے لگیں گے۔ پرولتاریہ کی آزادی کی پہلی شرط یہ ہے کہ کم از کم تمام ترقی یافتہ مہذب ملک ساتھ مل کر قدم اٹھائیں۔
ایک قوم کے ہاتھوں دوسری قوم کا استحصال اسی نسبت سے ختم ہو گا جس نسبت سے ایک فرد کے ہاتھوں دوسرے فرد کا استحصال۔
جتنی تیزی سے قوم کے اندر طبقوں کا اختلاف دور ہوگا اتنی ہی تیزی سے ایک قوم سے دوسری قوم کی دشمنی دور ہو گی۔
کمیونزم پر مذہبی فلسفیانہ اور عموما نظریاتی نقطہ نظر سے جو اعتراض کئے جاتے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
کیا یہ سمجھنے کے لئے غیرمعمولی بصیرت کی ضرورت ہے کہ آدمی کی مادی زندگی کی حالتوں، اس کے سماجی رشتوں اور اس کی سماجی زندگی میں جب کبھی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ آدمی کے خیالات ، تصورات اور نظریے، مختصر یہ کہ آدمی کا شعور بدل جاتا ہے؟
خیالات کی تاریخ نے اس کے سوا اور ثابت ہی کیا کیا ہے کہ جس نسبت سے مادی پیداوار کی نوعیت بدلتی ہے اسی نسبت سے ذہنی پیداوار کی نوعیت بھی بدلتی ہے۔ ہر عہد میں فرمان روائی انہیں خیالات کی رہی جو فرمان روا طبقے کے خیالات تھے۔
لوگ جب ایسے خیالات کا ذکر کرتے ہیں جن سے سماج میں انقلاب آتا ہے تو و ہ صرف اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ پرانے سماج کے اندر ایک نئے سماج کے عناصر پیدا کئے گئے ہیں اور پرانے حالات زندگی کے ساتھ ہر ہر قدم پر پرانے خیالات بھی مٹتے جاتے ہیں۔
قدیم دنیا جب آخری ہچکیاں لے رہی تھی اس وقت قدیم مذہبوں پر عیسائیت نے غلبہ پا لیا۔ اور اٹھارہویں صدی میں جب عقلی خیالات کے سامنے عیسائی خیالات نے ہتھیار رکھ دئے اس وقت جاگیردار سماج اپنے زمانے کے انقلابی بورژوا طبقے سے زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔ مذہبی آزادی اور ضمیر کی آزادی کے یہ خیالات صرف یہ ظاہر کر رہے تھے کہ علم کی دنیا میں آزاد مقابلے کا راج قائم ہو چکا ہے۔
کہا جائے گا کہ ’’بلا شبہہ تاریخی نشوونما کے دوران میں مذہبی اخلاقی فلسفیانہ سیاسی اور قانونی سیاست اور قانونی خیالات میں ترمیم ہوتی رہی ہے۔ لیکن مذہب فلسفہ، عمل سیاست اور قانون ان تبدیلیوں کے باوجود ہمیشہ قائم رہے۔
’’ پھر ان کے علاوہ کچھ ابدی صداقتیں بھی ہیں، جیسے آزادی، انصاف وغیرہ اور یہ سماج کی تمام منزلوں میں مشترک ہیں۔ لیکن کمیونزم تمام ابدی صداقتوں کی منکر ہے۔ وہ سرے سے مذہب اور اخلاق کو مٹا دیتی ہے۔ یہ نہیں کہ انھیں کسی نئی بنیاد پر مرتب کرتی ہو۔ اور اس لئے کمیونزم تمام پچھلے تاریخی تجربے کے خلاف قدم اٹھا رہی ہے۔‘‘
اس الزام کے معنی کیا ہیں؟ تمام پچھلے سماجی کی تاریخ، طبقاتی اختلافات کی نشوونما کی تاریخ ہے۔ ان اختلافات نے مختلف زمانوں میں مختلف صورتیں اختیار کیں۔ لیکن ان کی صورت کچھ بھی رہی ہو ایک خصوصیت تمام پچھلی صدیوں میں مشترک رہی اور وہ ہے سماج کے ایک حصے کے ہاتھوں دوسرے کا استحصال۔ چنانچہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ پچھلی صدیوں کا سماجی شعور اپنی رنگا رنگی اور گوناگوئی کے باوجود بعض مشترک صورتوں شعور کی صورتوں میں ارتقا کرتا رہا ہے اور یہ اس وقت تک پوری طرح نہیں مٹ سکتیں جب تک کہ خود طبقاتی اختلافات بالکل دور نہ ہو جائیں۔
کمیونسٹ انقلاب ملک کے روائیتی تعلقات پر سب سے کاری ضرب ہے۔ چنانچہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس کی نشوونما کی لپیٹ میں آ کر روائیتی خیالات کی جڑیں بھی کٹ جاتی ہیں۔
لیکن اب کمیونزم کے خلاف اعتراض کا قصہ ختم کیا جائے۔
ہم دیکھ آئے ہیں کہ انقلاب میں مزدور طبقے کا پہلا قدم پرولتاریہ کو حکمران طبقے کی جگہ پر پہنچانا ہے، جمہوریت کی لڑائی جیتنا ہے۔
پرولتاریہ اپنے سیاسی اقتدار سے کام لے کر رفتہ رفتہ پورا سرمایہ بورژوا طبقے سے چھین لے گا۔ پیداوار کے تمام آلات کو ریاست یعنی حکمران طبقے کی صورت میں منظم پرولتاریہ کے ہاتھوں میں مرکوز کر دے گا اور پھر جتنی تیزی سے ہو سکے تمام پیداواری قوتوں کو ترقی دے گا۔
اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں اس کو عمل میں لانے کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ ملکیت کے حقوق اور بورژوا پیداوار کے تعلقات پر جارحانہ حملہ کیا جائے۔ لہذا ایسی تدبیریں اختیار کی جائیں جو اقتصادی اعتبار سے ناکافی اور ناکارہ معلوم ہوں گی، لیکن جو تحریک کے دوران میں اپنی حدود سے آگے قدم بڑھائیں گی، جن سے پرانے سماجی نظام پر مزید حملوں کی ضرورت پیدا ہو گی اور جو طریقہ پیداوار کی بالکل کایا پلٹ دینے کے لئے بے حد ضروری ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مختلف ملکوں میں یہ تدبیریں بھی مختلف ہوں گی۔ بہر کیف سب سے ترقی یافتہ ملکوں میں مندرجہ ذیل تدبیریں بڑی حد تک قابل عمل ثابت ہوں گی۔:
1) زمین کے حق ملکیت کو مٹانا اور پورے لگان کو رفاہ عامہ پر خرچ کرنا۔
2) زیادہ آمدنی کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا ٹیکس لگانا۔
3) وراثت کے حقوق کو منسوخ کرنا۔
4) وطن سے فرار ہونے والوں اور باغیوں کی جایداد ضبط کرنا۔
5) لین دین کا سارا کاروبار ایک قومی بنک کے ذریعہ جس میں ریاست کا سرمایہ اور صرف اسی کا اجارہ ہو ریاست کے ہاتھوں میں مرکوز کرنا۔
6) نقل و حرکت اور خبررسانی کے تمام وسیلوں پر ریاست کا مرکزی قبضہ ہونا۔
7) ریاست کے کارخانوں اور آلات پیداوار کو توسیع دینا۔ ایک مشترکہ منصوبے کے مطابق بنجر زمین کو کاشت میں لانا اور بالعموم زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرنا۔
8) سب پر کام کرنے کی یکساں ذمہ داری ہونا۔ صنعتی فوجیں بنانا، خاص کر زراعت کے لئے۔
9) زراعت اور صنعت کو ملانا اور ملک میں آبادی کی تقسیم ایسے مساوی انداز میں کرنا کہ رفتہ رفتہ شہر اور دیہات کا فرق جاتا رہے۔
10)عا م اسکولوں کے ذریعہ تمام بچوں کو مفت تعلیم دینا۔ کارخانوں میں بچوں سے موجودہ شکل میں کام لینے کا رواج بند کرنا۔ تعلیم کو صنعتی پیداوار کے ساتھ ملانا وغیرہ وغیرہ۔
نشوونما کے دوران میں جب نتائج امتیازات مٹ جائیں گے اور تمام پیداوار پوری قوم کی ایک وسیع سماجی انجمن کے ہاتھوں میں جمع ہو جائے گی، اس وقت اقتدار عامہ کی سیاسی حیثیت جاتی رہے گی۔ سیاسی اقتدار اصل میں ایک طبقے کا منظم تشدد ہے دوسرے پر ظلم کرنے کے لئے۔ پرولتاریہ اگر بورژوا طبقے سے جدوجہد کے دوران حالات سے اس پر مجبور ہوتا ہے کہ ایک طبقے کی صورت میں اپنی تنظیم کرے، اگر انقلاب کی بدولت وہ حکمران طبقہ بنتا ہے اور اس طرح پیداوار کے پرانے تعلقات کو زبردستی ختم کر دیتا ہے تو اس کے ساتھ وہ ان حالتوں کو بھی ختم کر دیتا ہے جن پر طبقاتی اختلافات اور خود طبقات کا وجود منحصر ہے۔ اور اس طرح ایک طبقے کی حیثیت سے خود اپنے اقتدار کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ پرانے بورژوا سماج اور اس کے طبقوں اور طبقاتی اختلافوں کے بدلے ایک ایسی انجمن قائم ہو گی جس میں ہر شخص کی آزاد ترقی سب کی آزاد ترقی کی شرط ہو گی۔
3۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ادب
1 ۔ رجعتی سوشلزم
(1)جاگیرداری سوشلزم
فرانس اور انگلینڈ کے اشرافیہ کی تاریخ کچھ ایسی تھی کہ جدید بورژوا سماج کے خلاف مختصر پمفلٹ لکھنا اس کا مشغلہ بن گیا۔ جولائی 1830 کے انقلاب فرانس اور انگریزی اصلاح میں اس اشرافیہ کو ایک بار پھر اس ذلیل نودولتیے کے سامنے ہتھیار ڈال دینا پڑا۔ اس دن سے کسی اہم سیاسی جدوجہد کا سوال ہی باقی نہیں رہا، اب صرف قلم کی لڑائی ممکن تھی۔ لیکن ادب کے میدان میں بھی شاہی رجعت پسندی (فرانسیسی وراثت پسندوں اور نوجوان انگلینڈ کے ایک حصے نے یہی نظارہ پیش کیا۔ انگلینڈ کی 1660 سے 1689 کی شاہی رجعت نہیں بلکہ 1814 سے 1830 تک کی فرانس شاہی رجعت۔ (1888 کے انگریزی ایدیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔) کے زمانے کے نعرے بلند کرنا اب محال ہو گیا تھا۔ ہمدردی پیدا کرنے کی غرض سے اشرافیہ کو مجبور ہونا پڑا کہ بظاہر خود اپنے مفاد کو بھی نظر انداز کر دیں اور بورژوا طبقے کے خلاف فرد جرم مرتب کرنے میں صرف استحصال کئے جانے والے مزدور طبقے کے مفاد کو سامنے رکھیں۔ غرضیکہ اشرافیہ نے اپنے نئے آقاؤں سے انتقام کی صورت یہ نکالی کہ ان کی شان میں ہجو یہ نظمیں لکھیں اور آنے والی تباہی کی نامبارک فال ان کے کان تک پہنچاتا رہا۔
اس طرح جاگیردار سوشلزم کا ظہور ہوا: کچھ رونا دھونا، کچھ ہجو گوئی، کچھ ماضی کی گونج اور کچھ مستقبل کا ڈر۔ کبھی کبھی اپنی تلخ ظریفانہ اور چبھتی ہوئی تنقید سے وہ بورژوا طبقے کے دل کی گہرائیوں تک اترجاتی ہے۔ لیکن جدید تاریخ کے تقاضوں کو سمجھنے سے وہ بالکل معذور ہے اور اس لئے اس کا اثر ہمیشہ مضحکہ خیز ہوتا ہے۔
اشرافیہ نے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کے لئے مزدوروں کے نام پر خیرات کی جھولی اٹھائی اور اسے اپنا پرچم بنا لیا۔ مگر جب کبھی لوگ اس کے حلقے میں داخل ہوئے تو انھوں نےدیکھا کہ گھر کے اندر وہی پرانے جاگیردار منصب کا نشان ابھی تک محفوظ ہے ، چنانچہ زور کے حقارت آمیز قہقہے لگاتے ہوئے وہ اس سے الگ ہو گئے۔
فرانسیسی وراثت پسندوں (وراثت پسند ۔ اشراف زمینداروں کی پارٹی جو چاہتے تھے کہ فرانس میں دوبارہ بوربون خاندان کی بادشاہت قائم ہو۔ (ایڈیٹر) اور نوجوان انگلستان کے ایک حصے نے یہی نظارہ پیش کیا۔ (نوجوان انگلینڈ۔ انگریز قدامت پسندوں کا گروہ 1842 کے لگ بھگ قائم ہوا تھا۔ اس میں امراسیاست دان اورادیب تھے۔ ان میں ڈزررائیلی ٹامس کارلائل وغیرہ کے نام مشہور تھے۔)
اگر جاگیریت پسند کہتے ہیں کہ ان کا استحصال کا طریقہ، بورژوا طبقے سے مختلف تھا ، تو وہ بھول جاتے ہیں کہ جس ماحول اور جن حالتوں میں وہ استحصال کرتے تھے وہ بالکل مختلف تھیں اور اب گئے گزرے زمانے کی باتیں ہو گئیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں جدید پرولتاریہ کا کہیں وجود نہیں تھا تو وہ بھول جاتے ہیں کہ جدید بورژوا طبقہ ان کے سماجی نظام کی ہی پیداوار ہے۔
اور باقی تو وہ اپنی تنقید کی رجعتی نوعیت کو چھپانے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں۔ بورژوا طبقے کے خلاف ان کا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ بورژوا نظام کو بالکل جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکنے والا ہے۔ وہ بورژوا طبقے پر اس بات کے لئے زیادہ ملامت کرتے ہیں کہ وہ انقلابی پرولتاریہ پیدا کرتا ہے، بمقابلہ اس بات کے کہ وہ عام طور پر پرولتاریہ پیدا کرتا ہے۔
اس لئے عملی سیاست میں وہ مزدور طبقے کے خلاف تشدد کی سبھی کارروائیوں میں پورا حصہ لیتے ہیں، اور روزمرہ کی زندگی میں اپنی ساری ڈینگ کے باوجود صنعت کے درخت سے جو سنہرے پھل ٹپکتے ہیں ان کو اٹھانے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں اور اون، چقندر کی کھانڈ اور آلو کی شراب کی تجارت میں صداقت، محبت اور غیرت سبھی کا سودا کرتے ہیں۔ (یہ بات خاص طور پر جرمنی پر پوری اتری ہے جہاں کے زمین دار امرا اور بڑے بڑے آراضی دار اپنی زمینوں کے زیادہ حصے پر اپنے لئے گماشتوں کے ذریعہ کھیتی کراتے ہیں اور ساتھ ہی وہ شکر اور شراب کے بڑے بڑے کارخانوں کے مالک ہیں۔ انگریز اشرافیہ جوان سے زیادہ دولت مند ہے، ابھی تک ان باتوں سے بالاتر ہے۔ لیکن وہ بھی اپنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے لگان کو پورا کرنے کا طریقہ خوب جانتے ہیں اور مشکوک قسم کی جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں کھولنے والوں کو اپنا نام ادھار دیتے ہیں۔ (1888 کے انگریزی ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔)
مسیحی سوشلزم اور جاگیرداری سوشلزم میں سی طرح چولی دامن کا ساتھ ہے ، جس طرح پادری اور زمین دار میں۔
عیسائیوں کی رہبانیت کو سوشلزم کا جامہ پہنانے سے زیادہ آسان اور کوئی کام نہیں۔ کیا عیسائیت نے بھی ذاتی ملکیت ازدواج اور ریاست کے خلاف فتوے نہیں صادر کئے؟ کیا اس نے بھی ان کی جگہ پر نیک کام اور فقر تجرد اور نفس کشی رہبانی زندگی اور کلیسائیت کی تلقین نہیں کی؟ مسیحی سوشلزم وہ گنگا جل ہے جس کے چھینٹوں سے پادری اشرافیہ کے دل کی جلن کو سکون پہنچتا ہے۔
(ب) پپٹی بورژوا سوشلزم
جاگیردار اشرافیہ ہی ایک ایسا طبقہ نہیں جسے بورژوا طبقے نے ابتر بنایا ہو۔ جس کا نظام زندگی جدید بورژوا سماج کی فضا میں جھلس کر برباد ہو چکا ہو۔ عہد وسطی کے شہری بیوپاری اور چھوٹے آراضی دار کسان جدید بورژوا طببقے کے پیش رو تھے۔ جن ملکوں میں صنعت اور تجارت نے زیادہ ترقی نہیں کی وہاں آج بھی یہ دونوں طبقے نوخیز بورژوا طبقے کے پہلو بہ پہلو برے بھلے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
جن ملکوں میں جدید تہذیب پورے شباب پر پہنچ گئی ہے وہاں پیٹی بورژوا کا ایک نیا طبقہ بن گیا ہے جو پرولتاریہ اور بورژوا کے بیچ میں ڈانواڈول رہتا ہے اور بورژوا سماج کے ایک ضمنی حصے کی حیثیت سے برابر اپنی تجدید کرتا رہتا ہے۔ لیکن مقابلہ اس طبقے کے افراد کو ایک ایک کر کے مزدور طبقےکے اندر دھکیلتا رہتا ہے اور جوں جوں جدید صنعت ترقی کرتی ہے وہ خود اس لمحے کو قریب آتے دیکھتے ہیں۔ جب جدید سماج میں ان کی آزاد حیثیت ختم ہو جائے گی او رصنعت زراعت اور تجارت میں نگران کار کارندے اور دکان کے ملازم ان کی جگہ لے لیں گے۔
جن ملکوں میں فرانس کی طرح آبادی میں آدھے سے زیادہ کسان ہیں، وہاں یہ قدرتی بات تھی کہ بورژوا طبقے کے خلاف پرولتاریہ کا ساتھ دینے والے مصنف بورژوا نظام پر رائے زنی کرنے میں کسان یا پیٹی بورژوا طبقے کی کسوٹی سے کام لیتے اور ان ہی درمیانی طبقوں کے نقطہ نظر سے مزدور طبقے کی پشت پناہی کرتے۔ چناچہ اس طرح پیٹی بورژوا سوشلزم پیدا ہوئی۔ سسما ندی صرف فرانس میں ہی نہیں بلکہ انگلینڈ میں بھی اس مسلک کے لوگوں کا پیشوا تھا۔
سوشلزم کے اس مکتب نے جدید پیداواری تعلقات میں تضاد کی چھان بین کرنے میں بڑی ذہانت کا ثبوت دیا۔ اس نے ماہرین اقتصادیات کی منافقانہ بہانہ سازیوں کا پردہ فاش کیا۔ اس نے ناقابل تردید شہادتوں سے ثابت کی کہ مشین سازی اور تقسیم محنت، چند ہاتھوں میں سرمایہ اور زمین کا اجتماع، فاضل پیداوار اور بحران کیسے کیسے تباہ کن اثرات پیدا کرتے ہیں۔ اس نے پیٹی بورژوا اور کسانوں کی ناگزیر تباہی مزدور طبقے کی غریبی ، پیداوار کی بدنظمی، تقسیم دولت کی شدید نابرابری، قوموں کی آپس میں ایک دوسرے کو مٹا دینے والی صنعتی جنگ، پرانے اخلاقی بندھنوں ، پرانے خاندانی رشتوں اور پرانی قوموں کی بربادی کا نقشہ کھینچا۔
لیکن اپنے اثباتی مقاصد میں اس قسم کی سوشلزم یا تو پیداوار اور تبادلے کے پرانے وسیلوں کو اور ان کے ساتھ ملکیت کے پرانے رشتوں اور پرانے سماج کو بحال کرنے کی خواہاں ہے یا پھر پیداوار اور تبادلے کی دید وسیلوں کو ملکیت کے پرانے رشتوں کی حدبندی کے اندر اندر بند رکھنا چاہتی ہے، حالانکہ انہی وسیلوں کے دباؤ سے وہ رشتے دھماکے کے ساتھ ٹوٹے تھے۔ اور یہ ناگزیر تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ سوشلزم رجعت پرست اور یوٹوپیائی ہے۔
صنعت میں اہل حرفہ کی منظم ا نجمینں اور زراعت میں سرقبیلی رشتے، یہ اس سوشلزم کا حرف آخر ہے۔
لیکن بالآخر جب تاریخ کی اٹل حقیقتوں نے خود فریبی کے تمام نشہ آور اثرات کو دور کر دیا تو اس قسم کی اشتراکیت نے انتہائی یا س کےعالم میں سر پیٹ لیا۔ اور یہی اس کا انجام تھا۔
(ج) جرمن یا ’’سچی‘‘ سوشلزم
فرانس کا سوشلسٹ اور کمیونسٹ ادب ایسا ادب تھا جو ذی اقتدار بورژوا طبقے کے جبر اور دباؤ کے تحت پیدا ہوا اور جو ان کے اقتدار کے خلاف جدوجہد کا آئینہ دار تھا۔ یہ ادب جرمنی اس وقت پہنچا جب اس ملک کا بورژوا طبقہ جاگیردار انہ مطلق العنانی کے خلاف ابھی میدان میں اترا ہی تھا۔
جرمنی کے فلسفی، نیم فلسفی اور انشا پرداز بڑے اشتیاق سے اس ادب پر ٹوٹ پڑے۔ انہیں اتنی سی بات یاد نہیں رہی کہ یہ تحریریں جب فرانس سے جرمنی آئیں تو ان کے ساتھ فرانس کے سماجی حالات نہیں آئے تھے۔ جرمنی کے سماجی حالات میں آتے ہی یہ فرانسیسی ادب اپنی فوری عملی اہمیت کھو بیٹھا اور اس نے خالص ادبی صورت اختیار کر لی۔ چنانچہ اٹھارہویں صدی کے جرمن فلسفیوں کی نظر میں پہلے انقلاب فرانس کے مطالبے عام طور پر عملی منطق کے تقاضوں کے سوا اور کچھ نہ تھے اور ا ن کے خیال میں فرانس کی انقلابی بورژوا کی مرضی کا اظہار در اصل خالص مرضی یا مرضی کی اصلی صورت یعنی سچی انسانی مرضی کے قوانین کی اہمیت رکھتا تھا۔
جرمنی کے ارباب علم کا کام محض یہ تھا کہ نئے فرانسیسی خیالات اور اپنے فلسفیانہ نقطہ نظر سے فرانسیسی ضمیر میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ دوسرے لفظوں میں اپنے فلسفیانہ نقطہ نظر سے فرانسیسی خیالات کو اپنا لیں۔ ان خیالات کو انھوں نے اسی طرح اپنایا جیسے کسی بدیسی زبان کے ادب کو اپنایا جاتا ہے۔ یعنی ترجمے کے ذریعہ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ قدیم زمانے کے کلاسیکی قلمی نسخوں کے مسودوں کے اوپر راہبوں نے کیتھولک اولیاؤں کے لغو سوانح حیات لکھے تھے۔ جرمنی کے ارباب علم نے فرانس کے غیر مقدس ادب کے سلسلے میں اس طریقے کو الٹ دیا۔ فرانسیسی خیالات کو انھوں نے اپنے فلسفیانہ لغویات لکھنے کے لئے استعمال کیا۔ زر کے تعلقات کے بارے میں فرانسیسی تنقید کے نیچے انھوں نے ’’انسانیت کی برگشتگی‘‘ لکھا اور بورژوا ریاست کی فرانسیسی تنقید کے نیچے ’’مجرد کل کے تسلط کا خاتمہ‘‘ وغیرہ۔
غرضیکہ انھوں نے فرانس والوں کی تاریخی تنقیدوں کے ساتھ اپنے فلسفیانہ فقروں کا دم چھلا لگا دیا اور اس کا نام رکھ دیا: ’’فلسفہ عمل‘‘، ’’سچی سوشلزم‘‘، ’’سوشلزم کی جرمن سائنس‘‘ ، ’’سوشلزم کی فلسفیانہ بنیاد‘‘ وغیرہ۔
غرضیکہ فرانسیسی سوشلسٹ اور کمیونسٹ ادب بالکل بے جان بنا دیا گیا۔ اور چونکہ جرمنوں کے ہاتھوں میں وہ ایک طبقے کے خلاف دوسرے کی جدوجہد کا آئینہ دار بھی نہیں رہا، اس لئے اس کو یہ احساس ہو گیا کہ اس نے ’’فرانسیسی یک طرفہ پن‘‘ دور کردیا ہے اور وہ حقیقی تقاضوں کی نہیں بلکہ حق کے تقاضوں کی ، مزدور طبقے کے مفاد کی نہیں بلکہ انسانی فطرت کے مفاد کی، یعنی عام انسان کی نمائندگی کرتا ہے، جو کسی طبقے کا نہیں ہے، جس کا وجود صرف فلسفیانہ اوہام کے دھندھلکے میں ہیں۔
اسی اثنا میں یہ جرمن سوشلزم جس نے اپنے طفلانہ کاموں کو اتنا اہم اور سنجیدہ سمجھ رکھا تھا اوربازاری دوا فروش کی طرح اپنے دو کوڑی کے مال کا ڈھنڈورا پیٹا تھا، رفتہ رفتہ اپنی کتابی معصومیت کھو بیٹھی۔
جاگیردار اشرافیہ اور مطلق العنان بادشاہت کے خلاف جرمنی اور خصوصا پروشیا کے بورژوا طبقے کی لڑائی یا دوسرے لفظوں میں لبرل تحریک زیادہ سنگین ہو گئی۔ اس سے سچی سوشلزم کی دیرینہ آرزو بر آئی اور اسے موقع ملا کہ سیاسی تحریک کے سامنے سوشلسٹ مطالبے پیش کرے۔ اعتدال پسندی نمائندہ حکومت کے سامنے بورژوا مقابلہ پریس کے بورژوا آزادی بورژوا قانون سازی اور بورژوا آزادی اور برابری کے خلاف اپنی پرانی لعنتوں کی بوچھاڑ شروع کرے اور عوام الناس کو بتلائے کہ اس بورژوا تحریک میں اس کا کوئی فائدہ نہیں، سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔ جرمن سوشلزم عین وقت پر بھول گئی کہ وہ خود ایک فرانسیسی تنقید کی ایک بے معنی نقل تھی، اس کے پیش نظر جدید بورژوا سماج اسی سے مطابقت رکھنے والے مادی حالات زندگی اور سیاسی ڈھانچے سمیت تھا اور یہی وہ چیزیں تھیں جن کا حاصل کرنا جرمنی کی آنے والی جدوجہد کا مقصد تھا۔
جرمن مطلق العنان حکومتوں کے لئے جن کے ساتھ پادریوں، پروفیسروں، دیہاتی زمینداروں اور افسروں کا ایک لاؤ لشکر موجود تھا، یہ (سوشلزم) ایک پسندیدہ چیز تھی جس کی نوعیت سے خطرناک بڑھتی ہوئی بورژوازی کو ڈرایا جا سکتا تھا۔
یہ ان کڑوے تازیانوں اور گولیوں پر چڑھتی ہوئی شکر تھی جن کے ذریعہ حکومت جرمن مزدوروں کی بغاوتوں کو دبا رہی تھی۔ ایک طرف تو یہ ’’سچی‘‘ سوشلزم جرمن بورژوا طبقے کے خلاف لڑنے کے لئے حکومتوں کے ہاتھو ں میں ہتھیار کا کام دیتی تھی اور دوسری طرف براہ راست ایک رجعتی مفاد یعنی جرمنی کے پیٹی بورژوا زی کے مفاد کی علم بردار تھی۔ جرمنی کا یہ پیٹی بورژوا طبقہ سولہویں صدی کی نشانی ہے اور اس وقت سے برابر مختلف صورتوں میں نمودار ہوتا رہا ہے اور یہی موجودہ صورت حال کی اصلی سماجی بنیاد ہے۔
اس طبقے کو قائم رکھنے کا مطلب جرمنی میں موجودہ صورت حال کو قائم رکھنا ہے۔ بورژوازی کی صنعتی اور سیاسی برتری سے ڈرتے ہوئے وہ اپنی قطعی تباہی کا انتظار کرتا ہے۔ ایک طرف سرمائے کے مرکوز ہونےکی وجہ سے اور دوسری طرف انقلابی پرولتاریہ کی نشوونما کی وجہ سے۔ پیٹی بورژوا کو معلوم ہوتا ہے کہ ’’سچی‘‘ سوشلزم ایک تیر سے دونوں کا شکار کرتی ہے۔ اور اس لئے سچی سوشلزم ایک وبا کی طرح پھیل گئی۔
جرمن سوشلسٹوں نے اپنی بے مایہ ابدی صداقتوں کے لاغر پنجر کو ایک روحانی لباس پہنا دیا جسے منطقی استدلال کے تانے بانے سے بنایا گیا تھا، جس پر فصاحت کے بیل بوٹے کاڑھے ہوئے تھے اور میٹھے جذبات کی آنسوؤں میں بھیگا ہوا تھا۔ یہ لبادہ اس طبقے میں ان کے مال کی کھپت بڑھانے میں بہت کارآمد ثابت ہوا۔
اور اپنی جانب سے جرمن سوشلزم روز بروز یہ تسلیم کرتی گئی کہ لمبی چوڑی باتیں کرکے پیٹی بورژوا طبقے کی وکالت کرنا ہی اس کا اصلی کام ہے۔
اس نے دعوی کیا کہ جرمن قوم ایک مثالی قوم ہے اور جرمن کا پیٹی بورژوا انسانیت کا اعلی نمونہ۔ اس مثالی انسان کی ہر کمینہ حرکت اور سفلہ پن کی اس نے ایک مخفی اعلیٰ اور سوشلسٹ تعبیر پیش کی جو اس کی اصلی خصلت کے بالکل برعکس تھی۔ انتہا یہ کہ اس نے کمیونزم کی کھلم کھلا مخالفت شروع کر دی کہ اس میں ’’وحشیانہ تباہ کاری‘‘ کا رجحان پایا جاتا ہے اور اپنی غیر جانب داری کے نام سے تمام طبقاتی جدوجہد کے لئے انتہائی حقارت کا اظہار کیا۔ آج کل جرمنی میں سوشلزم اور کمیونزم کے نام سے جن کتابوں کا چلن ہے ان میں چند ایک کو چھوڑ کر سب اسی گندے اور نکما بنا دینے والے ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔ (1848 کے انقلابی طوفان نےاس پورے بھونڈے رجحان کو مٹا دیا اور اس کے علم برداروں کے دل سے سوشلزم میں الجھنے کا شوق دور کر دیا۔ اس رجحان کا اصلی اور مخصوص نمائندہ ہیر کارل گون ہے۔ 1890 کے جرمن ایڈیشن میں اینگز کا حاشیہ۔)
2۔ قدامت پسند یا بورژوا سوشلزم
بورژوا طبقے کا ایک حصہ سماج کی خرابیوں کو دور کرنا چاہتا ہے تا کہ بورژوا سماج کی زندگی کو قائم رکھا جا سکے۔
اس گروہ میں ماہرین معاشیات، انسانیت دوست، غریبوں کے ہمدرد، مزدور طبقے کی حالت سدھارنے والے، کارخیر کے ناظم، جانوروں پر بے رحمی کی مخالفت کرنے والی انجمنوں کے اراکین، شراب نوشی کے کٹر مخالف اور چھوٹے چھوٹے مصلح شامل ہیں۔ طرہ یہ کہ اس قسم کی سوشلزم کے مکمل نظام بھی تیار کر لئے گئے ہیں۔
اس نوع کی سوشلزم کی ایک مثال ہمیں پرودہون کی کتاب ’’افلاس کا فلسفہ‘‘ میں ملتی ہے۔ بورژوا سوشلسٹ جدید سماجی حالات کے تمام فائدوں کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، مگر اس جدوجہد کو اور ان خطروں کو جو ان کا لازمی نتیجہ ہیں ۔ وہ سماج کی موجودہ صورت حال کو پسند کرتے ہیں بشرطیکہ اس کے انقلابی اور انتشار پیدا کرنے والے عناصر کو نکال دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بورژوا طبقہ رہے مگر مزدور نہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ بورژوا کی نظر میں سب سے اچھی دنیا وہی ہو گی جس میں خود اس کا تسلط ہو۔ اور بورژوا سوشلزم اس خوش آئند تصور کو فروغ دے کر کم و بیش کئی مکمل نظام مرتب کر لیتی ہے۔ مزدوروں سے جب اس کی تجویز کی جاتی ہے کہ اس نظام پر عمل کریں اور بیٹھے بٹھائے ایک نئی جنت میں پہنچ جاؤں تو حقیقت میں کہنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مزدور موجودہ سماج کے دائرے کے اندر رہیں مگربورژوا طبقے کے بارے میں نفرت بھرے خیالات اپنے دماغ سے نکال دیں۔
اس سوشلزم کی ایک اور زیادہ عملی صورت ہے لیکن اس میں نظر و ترتیب کی کمی ہے۔ وہ مزدور طبقے کی جگہ نگاہ میں ہر انقلابی تحریک کی وقعت کم کرنے کے لئے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ انہیں محض کسی سیاسی اصلاح سے نہیں بلکہ زندگی کی مادی حالتوں کو اور معاشی رشتوں کو بدلنے سے ہی کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن زندگی کی مادی حالتوں کو بدلنے سے ہی سوشلزم کی منشا ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ پیداوار کے بورژوا تعلقات مٹا دئے جائیں۔ یہ کام تو صرف انقلاب کے ذریعہ ہی پورا ہو سکتا ہے۔ اس کا مدعا موجودہ رشتوں کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی بنیاد پر نظم و نسق میں اصلاح کرنا ہے۔ ان اصلاحات سے سرمایہ اور محنت کے رشتے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، بلکہ بہت ہوا تو بورژوا حکومت کے اخراجات میں کمی ہو سکتی ہے اور اس کے نظم و نسق میں زیادہ سہولت اور سادگی پیدا ہوسکتی ہے۔
بورژوا سوشلزم کا اصلی اظہار اس وقت اور صرف اس وقت ہوتا ہے جب وہ محض ایک استعارے کی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔
آزاد تجارتً مزدور طبقے کی بھلائی کے لئے۔ حفاظتی محصول! مزدور طبقے کی بھلائی کے لئے۔ قید تنہائی! مزدور طبقے کی بھلائی کے لئے۔ بورژوا سوشلزم کا حرف آخر یہی ہے اور یہی ایک ایسا حرف ہے جسے سنجیدگی کے ساتھ کہا گیا ہے۔
بورژوی کاسوشلزم اس صداقت پر مشتمل ہے کہ بورژوا ، بورژوا ہے، مزدور طبقے کی بھلائی کے لئے!
3۔ تنقیدی یوٹوپیائی سوشلزم اور کمیونزم
ہم یہاں اس ادب کا ذکر نہیں کرنا چاہتے جس نے آج کل کے ہر بڑے انقلاب میں پرولتاریہ کے مطالبوں کی آواز بلند ہے اور جس کی مثال بابیول وغیرہ کی تحریروں میں ملتی ہے۔
پرولتاریہ نے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کی براہ راست کوشش پہلے پہل اس وقت کی جب ہر طرف ہلچل مچی ہوئی تھی اور جاگیردار سماج کا قلعہ قمع کیا جا رہا تھا۔ ان کوششوں کا ناکام رہنا لازم تھا۔ کیونکہ اس وقت مزدور طبقہ زیادہ ترقی نہیں کرنے پایا تھا۔ اس کی نجات کے لئے جو معاشی حالتیں ضروری ہیں وہ بھی موجود نہ تھیں۔ انہیں ابھی وجود میں لانا اور آنے والا بورژوا عہد ہی انھیں وجود میں لا سکتا تھا۔ پرولتاریہ کہ ان ابتدائی تحریکوں کے ساتھ جو انقلابی ادب پیدا ہوا، اس کی نوعیت لازما رجعت پسند تھی۔ اس نےعام ترک دنیا اور نہایت بھونڈی قسم کی سماجی برابری کی تعلیم دی۔
اصل میں جو سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام کہلاتے ہیں یعنی جو سین سائمون فورئے اور او وین وغیرہ کی طرف منسوب ہیں وہ اس زمانے میں پیدا ہوئے تھے جب پرولتاریہ اور بورژوا طبقے کے درمیان جدوجہد نہایت ابتدائی اور بے ترقی یافتہ حالت میں تھی۔ اس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو پہلا باب بورژوا اور پرولتاریہ)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان نظاموں کے بانی طبقاتی اختلافوں سے بے خبر نہ تھے۔ انھوں نے ان عناصر کو بھی دیکھا تھا جن کے عمل سے مروجہ سماج میں انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ لیکن پرولتاریہ اس وقت تک اپنی طفولیت کے عالم میں تھا اور اس میں ان کو ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے جن سے معلوم ہو کہ اس طبقے میں تاریخی پیش قدمی یا آزاد سیاسی تحریک کا مادہ موجود ہے۔
چونکہ طبقاتی تصادم صنعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے، اس لئے ان لوگوں کو اپنے تصادم کو اپنے وقت کی اقتصادی صور ت حال میں وہ مادی حالتیں نہیں ملیں جو پرولتاریہ کی نجات کے لئے ضروری ہیں لہٰذا وہ ایک نئی سماجی سائنس کی ، نئے سماجی قانون کی کھوج کرنے لگے جس سے ان حالتوں کو پیدا کیا جا سکے۔
تاریخی عمل کی جگہ ان کا اپنا ذاتی اختراعی عمل ہوگا، نجات کی تاریخی طور پر پیدا ہونے والے حالتوں کی جگہ خیالی حالتیں، اور پرولتاریہ کی رفتہ رفتہ طبقے میں تنظیم کی جگہ سماج کی ایک ایسی تنظیم ہو گی جسے ان موجدوں نے خاص طور پر تیار کیا ہو۔ ان کے خیال میں مستقبل کی تاریخ یہ ہے کہ ان کے سماجی منصوبوں کی تبلیغ کی جائے اور انہیں عملی جامہ پہنایا جائے۔
اپنی تجویزوں کو مرتب کرنے میں وہ یہ احساس رکھتے ہیں کہ مزدور طبقے کے مفاد کا خاص دھیان رکھیں کہ وہ سب سے زیادہ مصیبت زدہ طبقہ ہے ان کی نگاہ میں پرولتاریہ کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ یہ غریب سب سے زیادہ مصیبت کا مارا ہوا ہے۔
طبقاتی جدوجہد کی غیرترقی یافتہ صورت اور پھر ان کے اپنے حالات زندگی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے سوشلسٹ اپنے آپ کو تمام طبقاتی اختلافوں سے بہت اونچا سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ سماج کے ہر فرد کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں، ان کی بھی جنہیں دنیا کی ہر نعمت حاصل ہے۔ اسی لئے عموماً و ہ بلا لحاظ طبقہ پورے سماج سے اپیل کرتے ہیں۔ یہی نہیں ۔ بلکہ حکمران طبقے سے اپیل کرنا زیادہ اچھا سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ایک بار ان کے نظام کو سمجھ لینے کے بعد کیسے کوئی شخص انکار کر سکتا ہے کہ سماج کی بہتر سے بہتر حالت کا بہتر خاکہ یہ نہیں ہے۔ اس لئے و ہ تمام سیاسی اور خصوصا انقلابی عمل کو ٹھکراتے ہیں۔ وہ پرامن طریقے سے اپنے مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ چھوٹے چھوتے تجربے کر کے، جن کا انجام ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا، مثال قائم کر کے سماجی پیغام کا راستہ صاف کریں۔
آنے والے سماج کی یہ خیالی تصویریں ایسے وقت کھینچی گئی تھیں جبکہ پرولتاریہ ابھی بہت پچھڑی ہوئی حالت میں تھا اور خود اس کے ذہن میں اپنی حیثیت کے متعلق بے سروپا خیالات بھرے ہوئے تھے۔ ان کا تعلق پرولتاریہ کے اس ابتدائی احساس سے تھا جو اس کے دل میں پورے سماج کی نئے سرے سے تعمیر کرنےکے لئے پیدا ہو رہا تھا۔
لیکن ان سوشلسٹ اور کمیونسٹ مطبوعات میں ایک تنقیدی پہلو بھی موجود ہے۔ وہ موجودہ سماج کے ہر اصول پر وار کرتے ہیں۔ لہٰذا مزدور طبقے کی تعلیم کے لئے ان میں نہایت بیش قیمت مواد بھرا پڑاہوا ہے۔ ان میں جو عملی تدبیریں پیش کی گئی ہیں مثلا یہ کہ شہر اور دیہات کی تمیز اٹھا دی جائے۔ خاندان، افراد کے فائدے کے لئے صنعتی کاروبار کا طریقہ اور اجرتی نظام مٹا دیئے جائیں ، سماجی ہم آہنگی پیدا کی جائے، ریاست جو کام انجام دیتی ہے، ان کے بدلے محض پیداوار کی دیکھ بھال کا کام رہنے دیا جائے۔ یہ سب تجویزیں صرف یہ بتا رہی ہیں کہ طبقاتی اختلافات مٹ جائیں گے۔ مگر اس وقت صرف انھوں نے ابھی ابھرنا ہی شروع کیا تھا اور ان مطبوعات میں ان کی بالکل ابتدائی غیرواضح اور نہایت مبہم صورت دکھائی دیتی ہے۔ اس لئے یہ تجویز محض یوٹوپیائی حیثیت رکھتی ہیں۔
تنقیدی یوٹوپیائی سوشلزم اور کمیونزم کی اہمیت میں اور تاریخی نشوونما میں الٹا تعلق ہے۔ جدید طبقاتی جدوجہد سے ان کی بے بنیاد علیحدگی اور اس کی بے سروپا مخالفت اپنی عملی قدرو قیمت اور نظریاتی جواز کھوتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اگر چہ ان نظاموں کے بانی کئی اعتبار سے انقلابی تھے مگر ان کے پیرو بلا استثناء محض رجعت پسند ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے استاد کے خیالات پر جوں کے توں جمے رہتے ہیں اور مزدور طبقے کی بڑھتی ہوئی تاریخی نشوونما کو نظر انداز کر تے ہیں۔ اس لئے وہ مسلسل طبقاتی کشمکش کو ختم کر نے اور طبقاتی اختلافات کا تصفیہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ ابھی تک اپنے تجربوں کے ذریعہ اپنے سماجی یوٹوپیائی منصوبوں کو پورا کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ الگ الگ ’’فلانستر‘‘ قائم کرنا، (فورئے نے جن سوشلسٹ نوآبادیوں کا منصوبہ بنایا تھا۔ انہیں فلانستر کہا جاتا ہے۔ کابے نے اپنے خیالی کمیونسٹ نوآبادی بسائی تو اس کا یہی نام پڑا۔ (1888 کے انگریزی ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔) گھریلو نوآبادیوں (Home Colonies) کو بسانا، اوویں اپنی کمیونسٹ سوسائیٹیوں کو Home Colonies یعنی گھریلو نو آبادیاں کہتا تھا۔ فوریئے نے جن عوامی محلوں کا منصوبہ بنایا تھا۔ ان کا نام فلانستر تھا۔ اور خواب و خیال کی وہ یوٹوپیائی دنیا جس کے کمیونسٹ اداروں کی تصویر کابے نے کھینچی تھی ایکاریا کہلاتی تھی۔ 1890 کے جرمن ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔) چھوٹے چھوٹے ایکاریا۔ (نئے یروشلم کا مختصر نمونہ) بنانا چاہتے ہیں۔ اور ان تمام ہوائی قلعوں کی تعمیر کے لئے مجبور ہوتے ہیں کہ بورژوازی کے جذبات سے اپیل کریں اور ان کے تھیلی شاہوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ تنزل کر کے وہ بھی ان رجعت پسند یا قدامت پرست سوشلسٹوں کے زمرے میں جا ملتے ہیں جن کی تصویر اوپر کھینچی گئی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی باقاعدہ کتاب پرستی اور اپنی سماجی سائنس کے معجزانہ اثرات پر ایمان رکھتے ہیں جو جنون اور اوہام پرستی کی حدتک جا پہنچتا ہے۔
اس لئے وہ مزدور طبقے کے ہر طبقے کے عمل کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں سماجی عمل کا راستہ وہی لوگ اختیار کر سکتے ہیں جو تعصب اور اندھے ہو جائیں اور ان کی نئی بشارت کے ماننے سے انکار کریں۔ اس لئے انگلستان میں اووین اور فرانس میں فورئے کے نام لیوا چارٹسٹوں اور اصلاح پسندوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ (اس کا ا شارہ اخبار La Reforme (الاصلاح) کے حامیوں کی طرف سے جوریپبلک قائم کرنے اور جمہوری سوشل اصلاحوں کا مطالبہ کرتے تھے۔ یہ اخبار 1843 سے 1850 تک پیرس سے شائع ہوا۔ (ایڈیٹر)
4۔ حکومت کی دوسری مخالف پارٹیوں سے کمیونسٹوں کا تعلق
دوسرے باب میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ مزدور طبقے کی موجودہ پارٹیوں سے جیسے انگلستان میں چارٹسٹوں اور شمالی امریکہ میں زرعی اصلاح پسندوں سے کمیونسٹوں کے تعلقات کیا ہیں۔
کمیونسٹ جدوجہد اس لئے کرتے ہیں کہ مزدور طبقے کے فوری مقصد حاصل ہوں، ان کے عارضی مفاد پورے کئے جاسکیں۔ لیکن حال کی تحریک میں و ہ اس تحریک کے مستقبل کی بھی ترجمانی کرتے ہیں اور اس کا دھیان رکھتے ہیں۔ فرانس میں کمیونسٹ قدامت پرست اور ریڈیکل بورژوا زی کے خلاف سوشل ڈیموکریٹوں سے ایکا کرتے ہیں۔ (اس پارٹی کی نمائندگی ان دنوں پارلیمنٹ میں لیدرورولن، ادب میں لوئی بلانک، روزانہ اخباروں میں Le Reforme کیا کرتے تھے۔ یہی لوگ سوشل ڈیموکریسی کے لفظ کے موجد تھے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب ڈیموکریٹک پارٹی یا رپبلکن پارٹی کا وہ حصہ تھا جس پر سوشلزم کا کم و بیش کچھ اثر ہو۔ (1888 کے انگریزی ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔)
فرانس میں ان دنوں جو پارٹی اپنے آپ کو سوشل ڈیموکریٹک کہتی تھی، اس کے نمائندے سیاسی زندگی میں لیدرورولن اور ادب میں لوئی بلانک تھے۔ چناچہ یہ موجودہ زمانے کی جرمن سوشل ڈیموکریسی سے بہت مختلف تھی۔ (1890 کے جرمن ایڈیشن میں اینگلز کا حاشیہ۔)
مگر انقلاب فرانس سے جو پرفریب الفاظ اور موہوم امیدیں منتقل ہوتی ہیں، ان پر رائے زنی کرنے کا حق انھوں نے نہیں چھوڑا۔ سوئزر لینڈ میں وہ ریڈیکل پارٹی کی مدد کرتے ہیں۔ مگر اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرتے کہ یہ پارٹی متضاد عناصر سے مل کر بنی ہے جس میں کچھ فرانسیسی قسم کے جمہوری سوشلسٹ ہیں اور کچھ ریڈیکل بورژوا۔
پولینڈ میں وہ اس پارٹی کے مددگار ہیں جو زرعی انقلاب پر زور دیتے ہیں کہ یہی قومی نجات کی شرط اول یہے۔ 1846 میں ایس پارٹی نے کراکف میں بغاوت کی آگ بھڑکائی تھی۔
جرمنی میں بورژوا طبقہ جب کبھی کسی انقلابی راستے پر قدم رکھتا ہے اور مطلق العنان بادشاہت جاگیردار زمین داری اور رجعت پسند پیٹی بورژوازی کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو کمیونسٹ اس کے ساتھ مل کر لڑتے ہیں۔
لیکن ایک لمحے کے لئے بھی وہ یہ نہیں بھولتے کہ بورژوا اور پرولتاریہ کی بنیادی دشمنی کا خیال بہت مضبوطی کے ساتھ مزدور طبقے کے دل میں بٹھا دیں تا کہ جب وقت آئے تو جرمن مزدوران کو سماجی اور سیاسی حالات کو جسے بورژوا طبقہ اپنے اقتدارکے ساتھ لازماً قائم کرے گا، خود بورژوا طبقے کے خلاف ہتھیار بنا کر استعمال کریں اور جرمنی میں رجعت پسند طبقوں کے زوال کے بعد خود بورژوا طبقے کے خلاف لڑائی شروع کر دی جائے۔
کمیونسٹوں کی نظر سب سے زیادہ جرمنی پر لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ اولاً اس ملک میں بورژوا انقلاب کی گھڑی آ پہنچی یہے اور یہ انقلاب لازما یورپی تہذیب کے بہت زیادہ ترقی یافتہ حالات میں اور ایک ایسے پرولتاریہ کے ساتھ ہو گا جو سترہویں صدی کے انگلستان اور اٹھارہویں صدی کے فرانس کے پرولتاریہ کی بہ نسبت بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ اور دوسرے اس لئے بھی کہ جرمنی میں بورژوا انقلاب اپنے فورا بعد آنے والے پرولتاری انقلاب کا پیش خیمہ ہو گا۔ مختصر یہ کہ کمیونسٹ ہر جگہ موجودہ سماجی اور سیاسی نظام کے خلاف ہر انقلابی تحریک کی مدد کرتے ہیں۔
وہ ان تمام تحریکوں کا سب سے اہم سوال، یعنی ملکیت کا سوال، سامنے لاتے ہیں خواہ تحریک اس وقت کسی بھی مرحلے میں کیوں نہ ہو۔
اور سب سے آخر میں یہ کہ کمیونسٹ ہمیشہ تمام ملکوں کی جمہوری پارٹیوں میں اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے خیالات اور مقاصد کو چھپانا کمیونسٹ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ برملا اعلان کرتے ہیں کہ ان کا اصلی مقصد اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جبکہ موجودہ سماجی نظام کا تختہ بزرر الٹ دیا جائے۔ حکمران طبقے کمیونسٹ انقلاب کے خوف سے کانپ رہے ہوں تو کانپیں۔ مزدوروں کو اپنی زنجیروں کے سوا کھونا ہی کیا ہے اور جیتنے کو ساری دنیا پڑی ہے۔
دنیا کے مزدورو ا، ایک ہو!
A. Hameed Yousuf
(Typist)